عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ﴾’’ تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ تعالیٰ کسی دوسری قوم کو لے آئے گا؛ جو مرتدین کے ٹھکانوں پر آدھمکیں گے ؛ [وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ ]﴿ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہوگا اوروہ اس سے محبت کرتے ہوں گے ۔‘‘ یہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء و اصحاب ہیں ۔‘‘
نیز امام طبری نے اپنی سندسے یہی قول ضحاک ؛ قتادہ؛ حسن اور ابن جریج رحمہم اللہ سے بھی روایت کیا ہے ؛ ان کے کہنا ہے کہ : قوم سے مراد انصار ہیں ۔ اورکچھ دوسرے لوگوں نے کہا ہے : ’’ قوم سے مراد اہل یمن ہیں ۔‘‘
بعض لوگوں نے اس آخری معنی کو ترجیح دی ہے ‘اور کہا ہے کہ اس سے مراد حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی قوم کے لوگ ہیں ۔امام طبری فرماتے ہیں : ’’ اگر اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ حدیث ثابت نہ ہوتی تو میں بھی وہی بات کہتا جو دوسرے لوگوں نے کہی ہے کہ اس سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ اوران کے رفقاء ہیں ۔
نیز آپ فرماتے ہیں : ’’جب اہل ارتداد اپنے دین سے پھر گئے تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں واپس لے آیا ۔‘‘ [تفسیر الطبری ۱۰؍۴۱۱]
دوسری بات:....شیعہ مصنف کے پاس اپنے دعوی کی کوئی دلیل نہیں ۔پس اس کی بات کو مان لینا کوئی ضروری نہیں ۔
تیسری بات:....یہ قول مشہور و معروف تفسیر کے منافی ہے۔مشہور تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کرام ہیں ۔ جنہوں نے آپ کے ساتھ اہل ارتداد سے جنگیں لڑیں ۔ یہ تفسیر لوگوں کے ہاں معروف ہے ؛ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم بیان کرچکے ہیں ۔ لیکن شیعہ کذاب یہ چاہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضائل میں وارد ہونے والی آیات و احادیث کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کے قالب میں ڈھال دیں ؛ لیکن یہ بری اور بد نیتی پر مبنی تدبیریں خود ان کے گلے کا طوق بنیں گی ؛[ ان شاء اللہ]
میرے ایک قابل اعتماد ساتھی نے مجھے بتایا کہ میں ایک شیخ کے پاس گیا؛ جسے میں بھی جانتا ہوں ؛ اس شیخ میں دین و زہد تھا اوراس کے احوال معروف تھے؛ اس میں شیعیت کا عنصر پایا جاتا تھا۔[میرا دوست] کہتا ہے: اس (شیخ) کے پاس ایک کتاب تھی؛ جس کی وہ بہت زیادہ تعظیم کرتا تھا؛ اور اس کا دعوی تھا کہ اس میں راز داری کی باتیں درج ہیں ‘ اور اس نے یہ کتاب خلفاء کے خزانوں سے حاصل کی ہے ۔اس نے کتاب کی مدح سرائی میں خوب مبالغہ کیا ؛ جب وہ کتاب سامنے لاکر رکھی گئی تو اس میں بخاری ومسلم کی وہ روایات تھیں جو حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل میں ہیں ؛ اور انہیں رخ موڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں شمار کیا گیا تھا۔
شائد کہ یہ کتاب مصر سے بنو عبید کے خزانوں میں سے حاصل کی گئی ہو؛ اس لیے کہ ان کے قریبی لوگ ملحد اورزندیق تھے جو اسلامی حقائق کو موڑتوڑ کر رکھنا چاہتے تھے۔انہوں نے دین کے نقض پر ایسی احادیث گھڑی ہیں جن کے بارے میں صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ جاہل لوگ انہیں دیکھ کر گمان کرتے ہیں یہ روایات بھی بخاری ومسلم سے لی گئی ہیں ۔جب کہ وہ لوگوں میں جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہوئے غلط بات کو رواج دے رہے ہیں ۔
|