ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ یہ حدیث موضوع ہے۔‘‘ اس افتراء کاسہرا مطر کے سر ہے ؛ اس کے بارے میں ابو حاتم فرماتے ہیں : ’’ ثقہ راویوں کی طرف من گھڑت روایات منسوب کرتا ہے ۔‘‘ اس سے روایت نقل کرنا حلال نہیں ۔
٭ تیسری وجہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرض حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہیں ادا کیا۔ بلکہ صحیح روایت میں ہے :’’ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو آپ کی درع تیس وسق جو کے بدلے ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی۔ یہ غلہ آپ نے اپنے اہل خانہ کے لیے خریدا تھا۔ ‘‘[1]
یہ قرض اس گروی سے پورا کیا گیا جو آپ نے اس کے پاس رہن میں رکھی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی قرض نہیں تھا۔ صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’میرے ورثہ ایک دینار یا درھم بھی تقسیم نہیں کریں گے۔ جو کچھ میں اپنے بعد چھوڑ دوں ‘وہ میری ازواج کا خرچہ ہے اور جو کچھ میرے عمال کما لائیں گے وہ صدقہ ہوگا۔‘‘
اگر آپ پر کوئی قرض ہوتا تو اسے آپ کے چھوڑے ہوئے ترکہ سے پورا کردیا جاتا۔ اس لیے کہ قرض کی ادائیگی صدقہ پر مقدم ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔
امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چھٹی حدیث:’’حدیث مؤاخاۃ ‘‘:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات میں چھٹی روایت حدیث مؤاخات ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے تھے اور آپ کو دیکھ اور جان رہے تھے، آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور کسی شخص کے درمیان بھائی چارہ قائم نہ کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے واپس لوٹ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ابو الحسن کہاں گئے؟‘‘ لوگوں نے کہا :’’ روتے اور آنسو بہاتے ہوئے چلے گئے ۔‘‘ [آپ نے فرمایا: ’’ اے بلال ! جاؤ ‘ اور انہیں میرے پاس بلا لاؤ۔آپ ان کے پاس چلے گئے ۔جب آپ ان کے گھر میں داخل ہوئے توحضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ]۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رونے کی وجہ پوچھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم کی ہے اور کسی کو میرا بھائی نہیں بنایا۔ ‘‘ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اﷲتعالیٰ آپ کو رسوا نہیں کرے گا، ہو سکتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اپنا بھائی بنانا چاہتے ہوں ۔‘‘حضرت بلال نے کہا: اے علی ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو بلا رہے ہیں ؛ تشریف لائیے۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بلانے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے توآپ نے رونے کا سبب دریافت کیا: اے ابو الحسن ! تمہیں کس چیز نے رلا دیا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کورونے کا سبب بتایاتو یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
|