Maktaba Wahhabi

632 - 764
ساتھ اللہ کی نصرت آپ کو بھی حاصل ہو۔ اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کے لیے کمال ایمان کی گواہی کو بھی متضمن ہے جس کا تقاضا ہے کہ خصوصاً ایسے احوال میں جہاں پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق سے ان کی بے نیازی کا ذکر کیا ہے ‘ وہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی یہ نصرت الٰہی شامل ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ﴾ ’’اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے۔‘‘ محدث ابن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اس آیت مبارکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اﷲتعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا سب لوگوں کو معتوب کیا ہے ۔‘‘ نیز آپ فرماتے ہیں : ’’ جو کوئی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے ۔ اس لیے کہ وہ قرآن کریم کو جھٹلا رہا ہے۔‘‘ اہل علم کا ایک گروہ جیسا کہ امام ابو القاسم سہیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’یہ معیت خاصہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور کے لیے ثابت نہیں ہوئی۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ کہنا کہ : ’’ ان دو کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے ۔‘‘اس میں لفظی و معنوی طور پر ان دونوں ہستیوں کی خصوصیت ظاہر ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو’’ محمد رسول اللہ ‘‘کے الفاظ سے مخاطب کیا جاتا تھا۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ کو ’’خلیفہ ء رسول اللہ ‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کیا جانے لگا۔ پس ’’خلیفہ‘‘کی اضافت اس ’’رسول‘‘ کی طرف کرتے جن کی اضافت اللہ کی طرف ہے۔یعنی مضاف إلیہ اللہ کی طرف مضاف ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف یہ اضافت اس قول کی صحیح تحقیق و تطبیق بن کرسامنے آتی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ نیز یہ قول کہ : ’’ان دو کے متعلقتیرا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرااللہ ہے ۔‘‘ ان کے بعد جب حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہیں امیر المؤمنین کہا جانے لگااور وہ مخصوص خطاب ختم ہوگیا جو کہ سارے صحابہ میں سے صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امتیازی شان تھی [یعنی خلیفہ ء رسول]۔ [صحابی کی تعریف]: مزیداس چیز سے یہ مؤقف واضح ہوتا ہے کہ اس صحبت میں عموم و خصوص پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ : ’’فلاں کو ایک گھڑی کی صحبت نصیب ہوئی ہوئی؛ فلاں کو ایک دن کی صحبت نصیب ہوئی ؛ ایک ہفتہ کی ؛ ایک ماہ کی؛ اور سال کی صحبت نصیب ہوئی ۔ اور فلاں نے تمام عمر صحبت میں گزار دی ۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ ﴾ [النساء۳۶]
Flag Counter