Maktaba Wahhabi

677 - 764
اور غار کے منہ پر ٹہلنے لگا۔تو اس وقت آپ کے لیے ممکن تھا کہ باہر نکل آتے اور دشمن کو آپ کی خبر کردیتے۔پس اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی دوسرا فرد و بشر نہیں تھا جو آپ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یا دشمن سے بچا سکتا۔ پس اس حالت میں غور کرنا چاہیے کہ اصل دشمن کون ہے وہ جو آپ کو ہلاک کرنا چاہتا ہو‘اور ایسے موقع کو غنیمت جانے جب کوئی بھی دشمن اپنے حریف پر قابو پالیتا ہے تو پھر کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار میں اکیلے تھے۔ اور دشمن غار کے دہانے تک پہنچ چکا تھا۔اور غار والے کو بچانے والا یا ان کا دفاع کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ اور دشمن بھی معمولی نہ تھے ؛ ایسے لوگ تھے جو اس وقت مکہ میں غالب تھے۔ اور اگروہ آپ کو پکڑ لیتے تو مکہ بھر میں کوئی انہیں آنکھ دکھانے والا بھی نہیں تھا۔اور اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ باطن میں مشرکین کے ساتھ ملے ہوئے تھے ؛ تو یہاں پر اسباب اور وسائل و حالات اس قدر بھر پور تھے کہ آپ کو پکڑ کر دشمن کے حوالے کردیا جاتا ۔جب قدرت کامل ہو‘اور فعل کے دواعی موجود ہوں تو اس فعل کو پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔جب ایسا کچھ ہوا نہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ اس کے دواعی موجود نہیں تھے یا پھر اس پر قدرت حاصل نہیں تھی۔ہم دیکھتے ہیں کہ قدرت تو موجود تھی؛ تومعلوم ہوا کہ دواعی اور اسباب موجود نہیں تھے۔اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس بات کو ہر انسان جانتا ہے۔ سواﷲ کی ذات پاک ہے جس نے روافض کو بصیرت و فراست سے محروم کردیا۔ ٭ ان بہتان تراشوں کا حال یہ ہے کہ :ان میں وہ لوگ بھی ہیں جوکہتے ہیں :ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی انگلی سے دشمن کی طرف اشارہ کررہے تھے تو سانپ نے آپ کو ڈس لیا ۔تو آپ نے انگلی پیچھے کھینچ لی۔اورآپ سے درد ختم ہوگئی ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے فرمایا: ’’ اگر تم نے دوبارہ عہد توڑا تووہ تمہارا ہاتھ توڑ دے گا۔‘‘ اور آپ نے دوبارہ اس عہد کو توڑا ؛ پھر اسی سبب سے آپ کی موت واقع ہوئی۔ ٭ اس بات کا جھوٹ ہونا کئی وجوہات کی بناپر ظاہر ہے ۔ ہم ان میں سے بعض کی تفصیل بیان کر چکے ہیں ۔ ٭ اور میں سے بعض کہتے ہیں کہ : آپ نے اپنا ٹخنہ ظاہر کیا تھا تاکہ دشمن کو پتہ چل سکے ؛ تو سانپ نے آپ کو ڈس لیا۔یہ بھی پہلے جھوٹ کی طرح کا ایک دوسرا جھوٹ ہے۔ [حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر بے صبری کی تہمت ]: [اعتراض]:شیعہ کا یہ قول کہ: یہ آیت آپ کے نقص پر دلالت کرتی ہے ؛ اس لیے کہ آیت میں :﴿لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ کے الفاظ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بے صبری ؛اللہ تعالیٰ پر عدمِ ایمان؛نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مساوات اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قضاء و تقدیر پر عدمِ رضامندی؛ اور بے صبری کو ظاہر کر رہے ہیں۔‘‘ [جواب]:پہلی بات :....ہم کہتے ہیں : شیعہ کے اقوال باہم متناقض ہیں ، وہ پہلے کہہ چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غار میں اپنے ساتھ اس لیے رکھا تھا کہ اگر وہ مکہ میں رہا تو آپ کے راز کو واشگاف کردے گا،اس لیے کہ ابوبکر آپ کے دشمن تھے‘اور درپردہ ان لوگوں سے ملے ہوئے تھے جو آپ کو تلاش کررہے تھے۔ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ
Flag Counter