عوض سو اونٹ ملیں گے۔ اسی حال میں میں اپنی قوم بنو مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان میں سے ایک آدمی آکر ہمارے پاس کھڑا ہوگیا؛ ہم بیٹھے ہوئے تھے ۔
اس نے کہا :اے سراقہ !میں نے ابھی چند لوگوں کو ساحل پر دیکھا ہے میرا خیال ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی ہیں ۔سراقہ کہتے ہیں :’’ میں سمجھ تو گیا کہ یہ وہی لوگ ہیں (مگر میں نے )اسے دھوکہ دینے کے لیے تاکہ وہ میرے حاصل کردہ انعام میں شریک نہ ہو سکے؛اس سے کہا یہ وہ لوگ نہیں بلکہ تو نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے جو ابھی ہمارے سامنے سے گئے ہیں ۔ پھر میں تھوڑی دیر مجلس میں ٹھہر کر کھڑا ہوگیا اور گھر آکر اپنی باندی کو حکم دیا کہ وہ میرے گھوڑے کو لے جا کر(فلاں )ٹیلہ کے پیچھے میرے لیے پکڑ کر کھڑی رہے۔ اور میں اپنا نیزہ لے کر اس کی نوک سے زمین پر خط کھینچتا ہوا اور اوپر کے حصہ کو جھکائے ہوئے گھر کے پیچھے سے نکل آیا حتی کہ میں اپنے گھوڑے کے پاس آ گیا ۔بس میں نے اپنے گھوڑے کو اڑا دیا کہ وہاں جلد پہنچ سکوں جب میں ان حضرات کے قریب ہوا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں گر پڑا فورا میں نے کھڑے ہو کر اپنے ترکش میں ہاتھ ڈالا اور اس میں سے تیر نکالے ؛پھر میں نے ان تیروں سے یہ فال نکالی کہ آیا میں انہیں نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں ؟ تو وہ بات نکلی جو مجھے پسند نہیں تھی ۔
پھر میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور میں نے ان تیروں کی فال کی پرواہ نہ کی اور گھوڑا مجھے ان کے قریب لے گیا حتی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت (کی آواز)سنی آپ ادھر ادھر نہیں دیکھ رہے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ادھر ادھر بہت دیکھ رہے تھے ۔ میرے گھوڑے کے اگلے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور میں اس کے اوپر سے گر پڑا۔ میں نے اپنے گھوڑے کو للکارا جب وہ(بڑی مشکل سے)سیدھا کھڑا ہوا تو اس کے اگلے پاؤں کی وجہ سے ایک غبار اٹھ کر دھوئیں کی طرح آسمان تک چڑھنے لگا پھر میں نے تیروں سے فال نکالی تو اس میں میری ناپسندیدہ بات نکلی۔
پھر میں نے ان حضرات سے امان طلب کرتے ہوئے پکارا تو یہ ٹھہر گئے۔ میں سوار ہو کر ان کے پاس آیا تو ان تک پہنچنے میں مجھے جو موانع پیش آئے ان کے پیش نظر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین غالب ہوجائے گا ۔‘‘[1]
پانچویں وجہ:....جب آپ غار میں تھے تو آپ کے بیٹے عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ تک مشرکین کی خبریں پہنچایا کرتے تھے ۔ اور آپ کے ساتھ ایک غلام عامر بن فہیرہ بھی ہوا کرتا تھا۔ ان کے لیے ممکن تھا کہ قریش کو آپ کے بارے میں خبر دیدیں ۔
چھٹی وجہ:....اگر معاملہ ایسے ہی تھا جیسے رافضی خبیث کا دعوی ہے‘ تو پھرایسا ہوسکتا تھا کہ : جب دشمن غار تک پہنچ گیا
|