تم نے پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا ؛پس تم پیچھے رہ جانے والوں میں ہی بیٹھے رہو ۔‘‘
فرمان ِالٰہی ہے:
﴿رَضُوْا بِاَنْ یَّکُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ﴾ [التوبہ ۸۷ ]
’’یہ تو خانہ نشین عورتوں کا ساتھ دینے پر ریجھ گئے ۔‘‘
فرمان ِالٰہی ہے:
﴿لٰکِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ جٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ﴾ [ التوبہ۸۸]
’’لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کیساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں ۔‘‘
اس طرح کی چیزیں کلام اللہ میں اورعام کلام عرب میں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں ۔
[عقیدہ وحدۃ الوجود پر رد]
جب لفظ ’’مع ‘‘ کا استعمال مخلوق کے مخلوق کے ساتھ ہونے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو تب بھی یہ دو ذاتوں کے اختلاط پر دلالت نہیں کرتا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ زیادہ اولی ہے کہ خالق کے مخلوق کے ساتھ اختلاط پر دلالت نہ کرے۔ اس کے ظاہر ہونے کا دعوی دو وجوہات کی بنا پر باطل ہے :
پہلی وجہ:....لغت عرب میں یہ اس معنی میں استعمال نہیں ہوتا ۔اور نہ ہی استعمال میں اس کے ساتھ کوئی اور ایسا قرینہ ملاہوا ہے جو ظہورپر دلالت کرے۔ اس لیے ظہور کا دعوی ہر لحاظ سے ممنوع ہے۔
دوسری وجہ:....جب قریب کے معنی میں ظہور کی نفی ثابت ہوجاتی ہے تو دور کے معنی میں بطریق اولی ثابت ہوتی ہے۔
امردوم: قرآن کریم میں معیت خاصہ کا ذکر معیت عامہ کی نسبت بہت زیادہ آیا ہے۔اگر اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات کا مخلوقات کے ساتھ اختلاط ہوتا تو پھر یہ معیت ہر ایک کے لیے عام اور برابر ہوتی ؛ تخصیص کی کوئی وجہ باقی نہ رہتی ۔
امر سوم: شروع سے آخر تک سیاق کلام معیت کے معانی پر دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمان ِالٰہی ہے:
﴿اَلَمْ تَرَی اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَی ثَلَاثَۃٍ اِِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلَا اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَا اَکْثَرَ اِِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا ثُمَّ یُنَبِّیُٔہُمْ بِمَا عَمِلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ﴾ [المجادلۃ ۷]
’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ کوئی تین آدمیوں کی کوئی سر گوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ کوئی پانچ آدمیوں کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم ہوتے ہیں اور نہ زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، جہاں بھی ہوں ، پھر وہ انھیں قیامت کے دن بتائے گا جو کچھ انھوں نے کیا۔ یقیناً اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
آیت کریمہ کو اللہ تعالیٰ نے علم سے ہی شروع کیا اور علم پر ہی ختم کیا۔تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ان کے احوال
|