اہل قبلہ میں شمار کرتے تھے ۔اور ان پر یہود و نصاری کے حکم سے ہٹ کر حکم لگایا کرتے تھے۔ اورآپ کا یہی معاملہ بنوامیہ اور ان کے متبعین میں سے ان لوگوں کے ساتھ تھا جو آپ سے بغض رکھتے تھے۔ تو پھر ان لوگوں کو یہود و نصاری کی طرح کیسے قراردیا جاسکتا ہے جو نمازیں پڑھتے ہوں ؛ رمضان کے روزے رکھتے ہوں ‘ بیت اللہ کا حج کرتے ہوں ‘ اور زکوٰۃ اداکرتے ہوں ؟ اس کی آخری حد یہ ہوسکتی ہے کہ اس انسان پر یا تو آپ کا امام ہونا مخفی رہا یا پھر اس نے معرفت حاصل ہونے کے بعد بھی آپ کی نافرمانی کی ۔
ہر صاحب عقل و خرد اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ جمہور اہل اسلام کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عداوت ہے نہ کسی اور سے۔ انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور آپ کے احکام کی خلاف ورزی سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ۔ نظر بریں اگر مسلمانوں کو معلوم ہوتاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصریحاً حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا ہے تو اس کی تصدیق کرنے میں انھیں پس و پیش کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا پتہ نہ چل سکا ۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کو دین کی کسی بات کا علم نہ ہو وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کیوں کر ہو سکتا ہے؟
یہاں پر تکفیر میں کلام کرنا مقصود نہیں ‘بلکہ اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ : یہ وہ جھوٹی احادیث ہیں جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہونا اضطراری طورپر معلوم ہے ‘اور یہ روایات دین اسلام کے متناقض ہے۔اور ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی مخالفت کرنے والوں کی تکفیر لازم آتی ہے۔ یہ باتیں کوئی ایسا انسان بھی نہیں کہہ سکتا جو اللہ تعالیٰ پر او رآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو؛ چہ جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ فرمایا ہو۔ العیاذ باللہ ؛ ایسی باتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بھی آپ کی ذات پر بہت بڑی قدح اورطعن کا موجب ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اسی ملحد او رزندیق کا فعل ہوسکتا ہے جو دین اسلام میں فساد اور بگاڑ پیدا کرنا چاہتا ہو۔ایسے لوگوں پر اللہ کی لعنت ہوجو اس کے رسول پر جھوٹ گھڑ لاتے ہیں ۔ شیعہ کی روایات موضوعہ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی قابل غور ہے:
آپ فرماتے ہیں :’’ جس نے دانستہ مجھ پر جھوٹ باندھا، وہ اپناگھر دوزخ میں بنا لے۔‘‘ [1]
[البتہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جو شخص نص رسول کو اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے نقطۂ خیال سے چھپا لے وہ یقیناً جہنمی ہے۔]
[قبول ِاحادیث کاوجوب]:
[ اشکال] :شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ جب امامیہ نے دیکھا کہ ہمارے مخالفین ایسی احادیث روایت کررہے ہیں تو ہم نے اپنے ثقہ راویوں سے نقل کرکے اہل سنت کی ذکر کردہ روایات سے کئی گنا زیادہ احادیث بیان کی ہیں ۔ہم پر واجب ہوتا ہے کہ ا ن کی طرف رجوع کریں ۔اور ان سے ہٹنا ہم پر حرام ہے ۔‘‘
|