Maktaba Wahhabi

250 - 764
اجتہاد کی بہت زیادہ ضرورت تھی ؛ بلکہ آپ کو ان مواقع پر چھوڑ دیا جن پر کسی بڑی سعی و اجتہاد کی ضرورت نہ تھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح فرمادیا کہ آپ کو نائب بناکر پیچھے چھوڑنے سے آپ کی شان میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اس لیے کہ اگر ایسا کرنا نقص یا عیب ہوتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ کبھی بھی ایسا نہ کرتے ۔مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا استخلاف حضرت ہارون علیہ السلام کی خلافت و نیابت کی مانند نہ تھا ۔ اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مناجات باری تعالیٰ کے لیے کوہ طور پر گئے تھے توآپ اکیلے گئے تھے ‘ اور اپنی عدم موجودگی میں ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ اور پورا لشکر حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس وقت مدینہ کا نائب مقرر کیا گیا تھا جب کہ تمام اہل اسلام کا لشکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں جنگ کے لیے جا رہے تھے۔اورمدینہ میں سوائے خواتین ‘ بچوں اور معذوروں کے علاوہ صرف وہ لوگ باقی تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہوئے پیچھے رہ گئے تھے۔ کسی کا یہ کہنا کہ : ’’ یہ چیز فلاں چیز کی منزلت پر ہے ۔‘‘ یا یہ کہنا کہ : ’’ فلاں چیز فلاں دوسری چیز کی مانند ہے ۔‘‘ تو کسی چیز کی دوسری چیز سے تشبیہ سیاق کی دلالت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔اس کا تقاضا ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ یہ دونوں چیزیں ہر لحاظ سے اور ہر چیز میں مساوی ہیں ۔ [ باقی رہا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ تھے:’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی‘‘تو یاد رہے کہ ایسے الفاظ میں تشبیہ ہر لحاظ سے مقصود نہیں ہوتی اور یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مُشَبَّہ اور مُشَبَّہ بِہٖ دونوں بالکل مساوی ہیں ۔] [حدیث استخلاف کی توضیح]: کیا آپ دیکھتے نہیں ہے کہ صحیحین میں بدر کے قیدیوں والی روایت موجود ہے ۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کے بارے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا تو آپ فدیہ لیکر رہا کردینے کا مشورہ دیا۔اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تو آپ نے ان سب کو قتل کردینے کا مشورہ دیا ۔ اس روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں ابھی تمہیں تمہارے دونوں ساتھیوں کے بارے میں بتاؤں گا۔ اے ابو بکر رضی اللہ عنہ ! آپ کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے فرمایا تھا: ﴿ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [ابراہیم۳۶] ’’پس جو کوئی میری اتباع کرے وہ مجھ سے ہے ‘ اور جو میری نافرمانی کرے بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے ۔‘‘ اور حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے فرمایا تھا: ﴿اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْلَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾ [المائدۃ۱۱۸] ’’ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو معاف فرما دے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔‘‘ اور اے عمر! آپ کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے فرمایا تھا: ﴿ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا ﴾ [نوح ۲۶]
Flag Counter