اس لیے کہ[اس بار] مدینہ میں کوئی طاقتور مؤمن باقی نہیں رہا تھا؛جس پر کسی کو خلیفہ بنایا جاتا؛ جیسا کہ بقیہ تمام
غزوات میں ہوا کرتا تھا۔ ان مواقع پر مدینہ میں بہت سارے طاقتور اہل ایمان موجود ہوا کرتے تھے؛ پھر جس کو آپ چاہتے ان پر خلیفہ بنادیتے۔پس آپ نے اپنے مغازی میں جتنے بھی لوگوں کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا؛ جیسا کہ غزوہ بدر کبری وصغری؛ غزوہ بنی مصطلق؛ غزوہ غابہ؛ غزوہ خیبر؛ غزوہ فتح مکہ؛ اور دیگروہ تمام مغازی جن میں جنگ تک نوبت نہیں پہنچی؛ ان کی تعداد سترہ سے کچھ زیادہ غزوات ہیں ؛ ان تمام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نہ کسی کو اپنا جانشین بنایا تھا؛ سوائے چند ایک مواقع کے ۔ایسے ہی آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اور اس سے قبل دونوں بارعمرہ کے موقع پر اورغزوہ تبوک کے موقع پر بھی آپ نے اپنے جانشین متعین کیے تھے۔
اس لیے کہ مدینہ میں ہر بار ایسے لوگ موجود ہوا کرتے تھے جو کہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کی نسبت بہت افضل ہوا کرتے تھے۔ اس سے قبل کا استخلاف ان لوگوں سے افضل لوگوں پر ہوا کرتا تھا جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نائب بنایا گیا تھا۔اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روتے ہوئے آئے اور عرض کیا:’’ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں ؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ منافقین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر طعن و تنقید کرتے ہوئے یہ خبر اڑائی تھی کہ : ’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں اس لیے ان کو جہادمیں ہمراہ نہیں لے جا ر ہے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے آپ کو امین سمجھ کر اپنا نائب مقرر کیا ہے؛ بغض کی بنا پر نہیں ۔ اور کہ نائب بنائے جانے سے شان میں کوئی کمی نہیں آتی؛ اور نہ ہی اس میں کسی کے لیے کوئی حسد و بغض ہے۔جب حضرت موسی علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب بنارہے ہیں تو پھر یہ فعل نقص کس طرح سے ہوسکتا ہے؟[ جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے اپنی عدم موجودگی میں حضرت ہارون کو اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ اسی طرح میں بھی تمہیں نائب مقرر کررہا ہوں ]۔اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مطمئن کردیا۔آپ نے یہ تسلی دی کہ کسی کو نائب بنایا جانا اس کے امین اور صاحب ِمرتبت ہونے کی دلیل ہے ۔اس میں کسی کی اہانت یا خیانت نہیں ۔اس لیے کہ نائب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں تمام امور پر امین و نگہبان ہوگا ؛ چونکہ باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں نکل چکے تھے۔
بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی جنگ کے لیے نکلتے ہیں تو ان لوگوں کو اپنے ساتھ لیتے ہیں جن سے زیادہ مدد حاصل ہوسکتی ہو۔ یا پھر جن کی ہمراہی کا فائدہ زیادہ ہو۔ جن کے مشورہ کی ضرورت زیادہ ہو ‘ اور جن کی زبان اور ہاتھ اور تلوار سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہوسکتا ہو۔
پس پیچھے رہ جانے والوں کے لیے کسی بڑی سیاست کی ضرورت نہیں تھی۔اس لیے ان ساری باتوں کی چنداں حاجت نہیں تھی۔ اس وجہ سے بعض لوگوں نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں نقص اور کمی شمار کیا ؛ اور آپ کو آپ کی منزلت سے کم جانا۔اس لیے کہ اس اہم ترین موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اپنے ساتھ لیکر نہیں گئے جس میں سعی و
|