کرنے کے مترادف ہے۔پھر ان کے پاس کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی جس کا سہارا لے سکیں ۔ان کا یہی حال ان کے ان اقوال و عقائد میں ہے جن میں یہ لوگ باقی امت سے منفرد ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ یہ لوگ آخری سرے کو لے لیتے ہیں جس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی ۔‘‘ یعنی اصول کو چھوڑ دیتے ہیں اور فروع کو لے لیتے ہیں ۔
اگر ان لوگوں کے ہاں اجماع حجت نہیں ہے تو پھرعصمت ہی ثابت نہیں ہوتی۔ اور اگر اجماع حجت ہے تو پھر معصوم کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔توثابت ہوا کہ ہر دو صورتوں میں یہ جائز نہیں ہے کہ ان لوگوں کا قول صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے حجت ہو۔اس سے لازم آتا ہے کہ اجماع حجت ہو۔ وگرنہ اس سے شیعہ اور سنہ ہر دو کے قول کا بطلان لازم آئے گا۔
[اجماع پر شیعہ کے اعتراضات]:
[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ اجماع میں سب لوگوں کا قول معتبر ہوتا ہے اور یہ بات موجود نہ تھی۔بلکہ نہ ہی اہل مدینہ یا ان میں سے بعض لوگوں کا کوئی اجماع تھا۔اور یقیناً اکثر لوگ قتل عثمان پر متفق تھے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:ہم قبل ازیں اس کا جواب دے چکے ہیں ، ہم نے بیان کیا تھا کہ ارباب حل و عقد کے اجماع میں چند افراد کے شرکت نہ کرنے سے کچھ حرج واقع نہیں ہوتا۔اس لیے کہ اس میں اہل شوکت اور ارباب حل و عقد کی موافقت درکار ہوتی ہے۔تاکہ امام مقاصد امامت کی تنفیذپرقادر ہوسکے۔بھلے سردارطبقہ کے اہل حل و عقد لوگ چند ایک ہی کیوں نہ ہوں ؛اورباقی لوگ ان کے موافق ہوں ۔ان کے بیعت کرلینے سے امامت منعقد ہو جائے گی۔یہی وہ درست بات ہے جس پر اہل سنت والجماعت کاربندہیں ۔اور امام احمد رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ کا مذہب ہے۔جب کہ اہل قدر میں سے ہر ایک نے اس کی تعداد متعین کی ہے؛ یہ سب باطل باتیں ہیں ۔
اگر اس سے مراد اولویت کے استحقاق پر اجماع ہو تو اس وقت یا تو تمام لوگ معتبر ہوتے ہیں یا پھر ان میں سے جمہور کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ یہ تینوں باتیں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں پائی جاتی تھیں ۔
٭ یہ بات غلط ہے کہ اکثر لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ بخلاف ازیں آپ کو قتل کرنے پر باغیوں کی ایک چھوٹی اور ظالم جماعت متفق تھی۔جن کا تعداد کل امت کا ہزارواں حصہ بھی نہیں بنتی تھی۔اور یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اکثر لشکر‘ اور آپ سے جنگ کرنے والے ‘ او رجنگ سے بیٹھ جانے والے لوگ قاتلین عثمان میں سے نہیں تھے۔ یہ چند ایک وہ لوگ تھے جو بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہوگئے تھے۔
خلافت عثمان میں امت اسلامیہ کی تعداد کئی لاکھ تھی۔ جب کہ آپ کو قتل کرنے والوں کی تعداد ایک ہزار بھی نہیں پہنچتی ۔حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
’’خداقاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت کرے، وہ چوروں کی طرح بستی کی پچھلی جانب سے داخل ہوئے۔ اﷲان کو
|