کتابیں تحریر کی ہیں ۔
وہ جانتے ہیں کہ وہ احادیث جو کہ سورت فاتحہ؛ آیت الکرسی؛ سورت بقرہ کی آخری آیات اورمعوذتین کے فضائل میں منقول احادیث صحیح احادیث ہیں ۔ اور اس تفریق کے لیے ان کے پاس وہ فرقان اور علم موجود ہے جس کی روشنی میں وہ سچ اور جھوٹ میں تمیز کرتے ہیں ۔
جہاں تک احادیث اسباب نزول کا تعلق ہے؛ تو ان روایات کی اکثریت مرسل ہے؛ ان کی کوئی سند نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’تین قسم کے علوم ایسے ہیں جن کی کوئی سند نہیں ہوتی۔ اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ ان کی کوئی اصل نہیں ہوتی: علم تفسیر؛ علم المغازی؛ اورعلم ملاحم ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تین قسم کے علوم میں مرسل احادیث ہوتی ہیں ۔
[مرسل روایات پر بحث:]
جہاں تک مرسل احادیث کا تعلق ہے تو ان کے قبول اور رد کے بارے میں اختلاف ہے۔ ان میں سے صحیح ترین قول یہ ہے کہ : مرسل روایات میں مقبول بھی ہوتی ہیں اور مردود بھی؛اور موقوف بھی۔پس جس کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ صرف ثقہ سے ہی ارسال کرتا ہے؛ تواس کی مرسل روایت قبول کی جائے گی۔ اور جس کے بارے میں یہ پتہ چلے کہ وہ ثقہ اور غیر ثقہ ہر ایک سے ارسال کرتاہے: اور اس کی یہ مرسل روایت ایسی ہو جس میں مرسل عنہ کے حال کا پتہ نہ ہو تو یہ روایت موقوف ہوگی۔اوروہ مراسیل جو ثقہ راویوں کی روایات کے مخالف ہوں تو وہ مردود ہوں گی۔
جب مرسل دو طرح سے روایت کی گئی ہو؛ اور دونوں راویوں کے مشائخ کے مختلف ہوں ۔ تویہ اس روایت کی صداقت کی دلیل ہے۔اس لیے کہ عمومی طور پر ایک جیسی غلطی میں تماثل یہ عمداً جھوٹ بولنا تصور نہیں کیا جاسکتا۔تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت سچ ہے۔ اس لیے کہ خبر دینے والے پر جھوٹ کا امکان دو طرح سے ہوسکتا ہے؛ یا تو وہ جان بوجھ کر جھوٹ بول رہا ہے؛ یا پھر اس سے غلطی کا ارتکاب ہورہا ہے۔پس جب قصہ ایسا ہو جس کے بارے میں یہ معلوم ہوکہ یہ دونوں خبر دینے والے آپس میں ایک جگہ پر جمع نہیں ہوئے۔ اور عادتاً ان دونوں کے مابین جھوٹ میں تماثل عمداً یا خطا سے محال ہو۔ مثال کے طور پر ایک لمبا قصہ ہو؛ اور اس میں بہت سارے اقوال ہوں ۔ اور ان میں سے دوسرا راوی بالکل ایسے ہی روایت کررہا ہو جیسے پہلے راوی نے بیان کیا ہے؛ تواس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خبر سچی ہے۔
یہ وہ طریقہ ہے جس سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صداقت بھی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں نبیوں نے اللہ تعالیٰ ؛ اس کے رسولوں ؛ اوراس کی تخلیق عالم؛ حضرت آدم اور حضرت یوسف علیہماالسلام کے قصے:اور ان کے علاوہ دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کے قصے۔بالکل جیسے ایک پیغمبر علیہ السلام نے بتایا ؛ دوسرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے بارے میں ویسے ہی خبر دی ۔ حالانکہ انہوں نے ایک دوسرے سے استفادہ نہیں کیا۔ اور عادتاً ایسی دوباطل خبروں کا متماثل ہونا محال ہوتا ہے۔ اس لیے کہ بلا شک و شبہ جو کوئی لمبے اورمتعین تفصیلی احوال کی خبر انتہائی باریک بینی سے دیتا ہے؛ تو
|