فرمایا : اس روایت کی کوئی اصل [بنیاد] ہی نہیں ہے۔‘‘
جیساکہ رجب کے روزوں کے بارے میں جو احادیث بیان کی جاتی ہیں اہل علم کے ہاں وہ تمام ضعیف ہی نہیں بلکہ جھوٹی ہیں ۔
ایسے ہی وہ روایات جو بطور خاص رجب کی فضیلت کے بارے میں نقل کی گئی ہیں ؛ یا پھر اس کے روزوں کے بارے میں ؛ یا رجب کے کسی ایک روزہ کے بارے میں ؛ یا مخصوص نماز کے بارے میں ؛جیسے [صلاۃ رغائب جو] رجب کے پہلے جمعہ کی رات کو پڑھی جاتی ہے؛ او رنصف شعبان کا الفیہ ؛ اور فضائل عاشوراء محرم کے بارے میں جو اہل و عیال کے اخراجات میں وسعت دینے کی روایت ہے؛ اور مصافحہ کے فضائل ؛ اورمہندی اورخضاب کے فضائل؛غسل وغیرہ کے فضائل ؛ عاشوراء کے دن کی نماز ۔ یہ تمام روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرمن گھڑت جھوٹ ہیں ۔
ایسے ہی جو کچھ ہفتہ وار نمازوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے: جیسے اتوار اور پیر کے دن کے علاوہ باقی ایام کی مخصوص نمازیں ؛ ایسی تمام روایات جھوٹ ہیں ۔ اور یہی حال نصف شعبان کا الفیہ ؛ اور رجب کے پہلے جمعہ کی نماز ۔ یا ستائیسویں شب کی نماز کے بارے میں تمام روایات من گھڑت اورجھوٹ ہیں ۔
یہی حال ان تمام نمازوں کا بھی ہے جن میں آیات کی تعداد یا سورتیں یاتسبیح متعین کی گئی ہے۔ ان کے جھوٹ ہونے پر تمام اہل علم محدثین کا اتفاق ہے۔سوائے نماز تسبیح کے۔ اس کے بارے میں دو قول ہیں ۔ ان میں سے بھی زیادہ ظاہر قول یہ ہے کہ یہ جھوٹ اور من گھڑت بات ہے۔اگرچہ اہل علم کا ایک گروہ اسے سچ سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ائمہ میں سے کسی نے اس روایت کو قبول نہیں کیا۔ بلکہ احمد بن حنبل اور ائمہ صحابہ اس کو مکروہ سمجھتے تھے اور اس حدیث پر طعن کرتے تھے۔ امام مالک؛ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہم اللہ نے یہ حدیث مطلق طور پر سنی ہی نہیں ۔امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کے اصحاب میں سے جن لوگوں نے اس کو مستحب کہا ہے وہ ان کا اپنا اختیاری کلام ہے؛ یہ ائمہ کرام سے منقول نہیں ہے۔
جہاں تک امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا تعلق ہے تو انہوں نے اس کو مشہور مذکور طریقہ کے مطابق مستحب نہیں سمجھا؛ جس میں قیام سے پہلے تسبیح پڑھی جاتی ہے۔ بلکہ آپ نے اسے دوسرے مشروع او رمستحب طریقہ کے جائز کہا ہے۔ تاکہ کسی بھی سنت کی بنیاد کسی ایسی روایت پر نہ رکھی جائے جس کی کوئی اصل ہی ثابت نہ ہو۔
یہی حال تفسیر کی کتابوں کا بھی ہے ؛ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بہت ساری چیزیں ایسی منقول ہیں جن کے بارے میں ماہرین علم حدیث یقینی طور پر کہتے ہیں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ہر سورت کے فضائل کی احادیث جنہیں ثعلبی اور کلبی نے ہر تفسیر کے شروع میں اور ذکر کیا ہے؛ اور زمحشری ہر صورت کے آخر میں بیان کرتا ہے۔ اور محدثین یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سورتوں کے فضائل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول چند احادیث ہی صحیح ہیں ۔ ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جس میں سورت اخلاص کے فضائل بیان کیے گئے ہیں ؛اسے اہل صحاح نے روایت کیا ہے۔اور حافظ ابو محمد الخلال اور کچھ دوسرے حفاظ حضرات محدثین نے اس کے فضائل میں منفرد
|