Maktaba Wahhabi

130 - 764
لیے ] آپ اپنے مال کیساتھ جہاد کرنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت رکھتے تھے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مال دار انسان تھے اورجہاد بالمال اور جہاد بالنفس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں دیا ؛ جتنا فائدہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے ‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ تنگ دست تھے، خرچ کرنے کے لیے ان کے پاس مال موجود ہی نہ تھا بخلاف ازیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غنی تھے اور انھوں نے اﷲکی راہ میں کثیر مال صرف کیا تھا۔اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے ۔ ان شاء اللہ امامت علی رضی اللہ عنہ کی اٹھارھویں دلیل: [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کی اٹھارھویں دلیل یہ آیت ہے : ﴿اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً﴾ (المجادلۃ:۱۲) ’’جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو ۔‘‘ حافظ ابو نعیم نے اپنی سند سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے آ پ فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ نے صدقہ کرنے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گفتگو کرنے کو حرام قرار دیا تھا۔ باقی صحابہ آپ سے کلام کرنے سے قبل صدقہ کرنے میں بخل سے کام لیا کرتے تھے۔ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ صدقہ دیتے تھے۔‘‘مسلمانوں میں سے کسی اور کو یہ سعادت حاصل نہیں ہوئی۔ تفسیر ثعلبی میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تین اوصاف کے حامل تھے اگر مجھ میں ان تین باتوں میں سے ایک بھی ہوتی تو مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ عزیز تھا: ۱....سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی۔ ۲....غزوۂ خیبر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا عطا کرنا۔ ۳....آیت نجویٰ۔ ’’رزین بن معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب ’’ الجمع بین الصحاح الستۃ‘‘ میں روایت کیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:’’ اس آیت پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا اور میری وجہ سے اﷲتعالیٰ نے امت کا بوجھ ہلکا کردیا۔‘‘مذکورہ صدر اقوال سے باقی صحابہ پر علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، لہٰذا آپ احق بالامامت ہوں گے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔ جواب:ہم کہتے ہیں کہ ’’ صحیح بات جو ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت پر عمل کیا اور پھریہ جلد ہی کسی دوسرے کے عمل کرنے سے پہلے منسوخ ہو گئی۔ [یعنی دیگر صحابہ کو اس پر عمل کرنے کا شرف حاصل ہونے کا موقع ہی نہ مل سکا]۔ علاوہ ازیں اس آیت میں صدقہ کو واجب قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ یہ حکم دیا گیا تھا کہ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے راز دارانہ طور پر کوئی بات کرنا چاہیں تو صدقہ ادا کریں ۔ جو شخص ایسی بات نہ کرنا چاہتا ہو اس کے لیے صدقہ ادا کرنا ضروری نہیں تھا۔ چونکہ سرگوشی واجب نہ تھی لہٰذا غیر واجب چیز کو ترک کرنے میں کسی پر کوئی حرج نہیں یا ملامت نہیں ۔ یہ
Flag Counter