Maktaba Wahhabi

76 - 764
ثابت ہوجائے ۔ پس کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ہم آپ کے خلاف ایسی روایت سے دلیل پیش کرتے ہیں جو جمہور میں سے کسی ایک نے نقل کی ہے۔ یہ قول تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے : میں تم پر تمہارے خلاف جمہور کی گواہی کی روشنی میں فیصلہ دیتا ہوں ۔ تو کیا علمائے جمہور نے یہ کہاہے کہ : ان میں سے جو کوئی بھی؛ جیسی بھی گواہی دے گا وہ عدل و انصاف پر مبنی ہوگی۔ یا کسی ایک نے یہ کہا ہے کہ : جمہور میں سے جو کوئی بھی؛ کوئی بھی روایت نقل کرے گا وہ ہر حال میں صحیح ہی ہوگی۔ پھر جمہور علمائے کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ ثعلبی اور اس کے امثال صحیح و ضعیف ہر قسم کی روایات نقل کرتے ہیں ۔او ر جمہور کا یہ بھی اتفاق ہے کہ : صرف ثعلبی کے نقل کرنے کی وجہ سے اتباع واجب نہیں ہوجاتی۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ثعلبی تو’’ حاطب لیل‘‘ہے؛ جو بھی روایت پاتا ہے اسے نقل کرلیتا ہے؛ خواہ وہ روایت صحیح ہو یا ضعیف۔ثعلبی کی تفسیر میں اگرچہ اکثر احادیث صحیح ہیں لیکن باتفاق اہل علم اس میں ایسی روایات بھی موجود ہیں جوکہ جھوٹ اور موضوع ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کی تفسیر کو ابو محمد الحسین بن مسعود البغوی رحمہ اللہ نے مختصر کیا؛ تو آپ اس کی نسبت حدیث اور فقہ کے زیادہ ماہر تھے؛ جب کہ ثعلبی اس کی نسبت مفسرین کے اقوال کا زیادہ ماہر تھا۔ تو بغوی نے اس سے مفسرین اور نحویوں کے اقوال اور قصص الانبیاء تو نقل کیے؛یہ چیزیں بغوی نے ثعلبی سے لی ہیں ۔مگر جہاں تک حدیث کا تعلق ہے ؛ تو بغوی نے ثعلبی کی ذکر کردہ موضوعات میں کوئی ایک حدیث بھی ذکر نہیں کی۔ بلکہ اس نے ان میں سے صرف صحیح احادیث ہی ذکر کی ہیں ۔ ان میں سے بعض تو بخاری یا دوسری کتابوں کی طرف منسوب ہیں ۔ اس لیے کہ آپ کی تصانیف میں سے شرح السنۃ اور المصابیح بھی ہے۔ اور آپ نے ان احادیث کو ذکر کیا ہے جو صحیحین یا سنن میں ہیں ۔ اور ایسی کوئی بھی حدیث ذکر نہیں کی جس کے بارے میں علمائے حدیث پر یہ ظاہر ہوتا ہو کہ روایت موضوع ہے۔ جیسا کہ دوسرے مفسرین کرتے ہیں ۔ جیسا کہ واحدی ؛ ثعلبی کے ساتھی کا شیوہ ہے ۔ یہ واحدی عربی زبان کا ثعلبی سے بڑا ماہر اور عالم ہے۔ اور جیسا کہ زمحشری اوروہ دوسرے مفسرین جو ایسی احادیث ذکر کرتے ہیں جن کے بارے میں علمائے حدیث جانتے ہیں کہ یہ موضوع روایات ہیں ۔ [مذکورہ بالا حدیث ضعیف ہے] دوسری وجہ:....محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں یہ روایت بلاشبہ جھوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین میں سے کسی ایک نے بھی اپنی کسی معتمد کتاب میں اس روایت کو جگہ نہیں دی۔یہ روایت نہ ہی صحاح ستہ میں ہے؛نہ ہی سنن میں ؛نہ ہی مسانید میں ۔ حالانکہ ان میں سے بعض کتابوں میں ضعیف احادیث پائی جاتی ہیں ۔بلکہ بعض موضوع روایات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ لیکن موضوع روایات بہت ہی کم ہیں ؛جب کہ مذکورہ بالاروایت ایسا واضح جھوٹ تھا کہ کسی نے اس کا ذکر تک نہیں کیا ۔ تیسری وجہ:....مزید براں یہ آیت بالاتفاق مساجد سے متعلق ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ کے فرمان سے صاف ظاہر ہے :
Flag Counter