روایت کرنے کا حکم دیتاتھا۔ہم نے کئی مشائخ سے اس کی تصدیق کرکے اس پر یقین کیا ہے۔ جب امام دارقطنی رحمہ اللہ سے ابن عقدہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:’’وہ برا آدمی ہے۔‘‘
اس کی اسناد میں داؤد بن فراہیج ہے جس نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ امام شعبہ نے اس داؤد کو ضعیف قرار دیا ہے۔[1]
میں کہتا ہوں :’’اس کی سند میں کوئی بھی راوی ایسا نہیں جس سے کسی ادنی مسئلہ میں بھی احتجاج کیا جاسکتا ہو۔
دوسری بار: بابل میں [سورج کی واپسی] ۔ اس روایت کے جھوٹ ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ حمیری کے شعر کہنے میں کوئی دلیل نہیں ۔اس لیے کہ اس نے خود اس کا مشاہدہ نہیں کیا۔جھوٹ بہت پرانا ہے۔ اس نے بھی کسی سے یہ [جھوٹ] سن لیا ہوگا اور پر شعر کہہ دیے ہوں گے۔غالی لوگ مدح و ذم میں ایسی چیزوں کو شعری شکل میں پرو دیتے ہیں کہ ان کی صحت تحقیق کے ساتھ ثابت نہیں ہوتی۔ خصوصاً جب کہ حمیری[2] غلو کرنے میں معروف ہے۔
بعض انبیاء علیہم السلام کے لیے رجوع آفتاب:
صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’ انبیاء علیہ السلام میں سے ایک نبی نے جہاد کیا؛ اور اپنی قوم سے انہوں نے فرمایا:’’ جس آدمی نے ابھی شادی کی ہو اور اس نے ابھی تک شب زفاف نہ گزاری ہو اور وہ یہ چاہتا ہو کہ اپنی بیوی کے ساتھ رات گزارے تو وہ آدمی میرے ساتھ نہ چلے۔ اور نہ ہی وہ آدمی میرے ساتھ چلے کہ جس نے مکان بنایا ہو اور ابھی تک اس کی چھت نہ ڈالی ہو۔ اور میرے ساتھ وہ بھی نہ جائے جس نے بکریاں اور گابھن اونٹیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچہ جننے کا انتظار میں ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ:’’ اس نبی علیہ السلام نے جہاد کیا ‘اورایک گاؤں کے قریب آئے ؛ وہاں عصر کی نمازپڑھی۔تو انہوں نے سورج سے کہا تو بھی مامور ہے اور میں بھی مامور ہوں ۔ یا اللہ! اس سورج کو کچھ دیر مجھ پر روک دے پھر سورج کو ان پر روک دیا گیا؛ یہاں تک کہ اللہ نے ان کو فتح عطا فرمائی۔‘‘[3]
|