دوسری دلیل سمعی موجود نہیں ۔
٭ جب ہم کہتے ہیں : ’’ نقل کرتے ہوئے ‘‘ تو اس میں کلام اللہ اور کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں شامل ہوتے ہیں ؛ اور اہل اجماع کا کلام بھی ان لوگوں کے ہاں شامل ہوتا ہے جو اسے حجت مانتے ہیں ۔بلاشبہ رافضی اجماع کو حجت ہی نہیں مانتے ۔ ایسے ہی افعال و اقرار اورخاموشی بھی اسی طریقہ پر ہے۔
فصل: ....حدیث میں مہارت کی ضرورت
[اہل نظر و استدلال میں ہر کوئی منقولات کا خبیر اورجھوٹ اورسچ اور صحیح اور سقیم کے مابین فرق کا ماہر نہیں ہوتا]
جان لیجیے کہ : اہل نظر و استدلال میں ہر کوئی منقولات کا خبیر اورجھوٹ اورسچ اور صحیح اور سقیم کے مابین فرق کا ماہر نہیں ہوتا؛عوام الناس کی تو بات ہی کجا ہے۔اور اجمالی طور پر یہ بات معلوم شدہ ہے کہ منقولات میں سچ بھی ہوتا ہے اور جھوٹ بھی۔ اور ان حضرات کو علم حدیث کے ماہر علماء کی طرح کا علم اور تجربہ نہیں ہوتا۔ پس انہیں حضرات کو جھوٹ اور سچ پر استدلال کرنے کے لیے دوسرے طریقوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے؛ اور انسان کو وہ کچھ سکھایا ہے جو وہ نہیں جانتا تھ۔ اور اسے پیدا کیا؛ پھر برابر کیا؛ جس نے تقدیر مقرر کی اور ہدایت دی۔ اورہر چیز کو اس کے مناسب حال پر پیدا کیااور پھر اس کو ہدایت دی۔ وہ ہستی جس نے لوگوں کوان کی ماؤں کے پیٹوں سے نکالا؛اوروہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے؛ اور پھران کے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنادیے ؛ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے ان دلائل کی طرف آسانی سے ہدایت دیتا ہے جن کی وجہ سے حق اور باطل اور سچ اور جھوٹ کے درمیان تمیز کرنا ممکن ہو۔
جیسا کہ حدیث قدسی میں آیا ہے :
’’ اے میرے بندو! تم سارے گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دیدوں ۔پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو‘ میں تمہیں ہدایت دوں گا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ جھوٹ سے سچ کی معرفت کے مختلف طریقے ہیں ۔ حتی کہ کوئی خبر دینے والا اپنی ذات کے بارے میں یہ خبر دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہے۔ یعنی وہ نبوت کا دعوی کرتا ہے۔ پس وہ طرق جن کے ذریعہ سچے کی سچائی اور جھوٹے کذاب متنبی کی معرفت ہو؛ بہت زیادہ اور مختلف ہیں ۔ اس مسئلہ پر ہم کئی ایک مواقع پر تنبیہ کرچکے ہیں ۔ یہی حال رسولوں سے منقول پیغام کا بھی ہے۔ ان میں سے سچ اور جھوٹ کے جاننے کے طریقے متعدد اور متنوع ہیں ۔ اور یہی حال ان لوگوں کی صداقت جاننے کا بھی ہے جو اس علم نبوت کے حاملین ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل علم سچوں کی سچائی کو جانتے ہیں ۔ جیسا کہ امام مالک، اورالثوری، شعبہ، یحی بن سعید؛ عبد الرحمن بن مہدی؛ أحمد بن حنبل، البخاری، مسلم، ابو داود، اور ان کے امثال علماء کے متعلق علم یقینی کے طور پر جانتے ہیں ؛ اور پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ : یہ حضرات
|