Maktaba Wahhabi

199 - 764
نے مبعوث کیا تھا؟ ۶۔ چھٹی وجہ : فرض کیجیے شاہد سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔تو پھربھی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ افضل الصحابہ ہیں ۔ جیساکہ اہل کتاب بھی اس کی گواہی دیتے ہیں ؛ گواہی دینے والوں میں حضرت عبد اﷲ بن سلام ، سلمان و کعب الاحبار وغیرہ لوگ شامل تھے، حالانکہ یہ باقی صحابہ سابقین اولین ‘مہاجرین و انصار جیسے حضرات ابو بکر و عمر و عثمان اور علی و جعفر رضی اللہ عنہم وغیرہ سے افضل نہ تھے۔ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بتیسویں دلیل: [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بتیسویں دلیل یہ آیت ہے : ﴿یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ﴾ (التحریم:۸) ’’ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان داروں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا ۔‘‘ ابو نعیم نے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : جو شخص سب سے پہلے جنتی لباس پہنے گا وہ حضرت ابراہیم ہیں کیونکہ آپ خلیل ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے کہ آپ اﷲکے برگزیدہ ہیں ؛ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں کے درمیان جنت کی سیر کریں گے۔‘‘ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت تلاوت کی : ﴿یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ﴾ اور فرمایا : اس سے مراد علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ہیں ۔یہ دلیل ہے کہ آپ دوسروں سے افضل ہیں ؛ لہٰذا آپ ہی امام ہوں گے۔‘‘ [شیعہ کا بیان ختم ہوا] [جواب]:اس کا جواب کئی طرح سے ہے : ٭ پہلی بات:....ہم اس روایت کی صحت ِ نقل کا مطالبہ کرتے ہیں خصوصاً ایسی روایت کے لیے کہ جس کی کوئی اصل ہی نہیں ۔ ٭ دوسری بات : یہ روایت باتفاق محدثین و علمائے کرام رحمہم اللہ جھوٹ ہے ۔ ٭ تیسری بات: یہ دعوی قطعی طور پر باطل ہے ۔ اس لیے کہ اس کا تقاضا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہوں ۔ اس لیے کہ آپ وسط ہیں ؛ اور دونوں نبی دونوں جوانب ہیں ۔مخلوق میں سے افضل ہستی ابراہیم علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ جو کوئی ان پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فضیلت دے ؛ وہ یہود و نصاریٰ سے بڑا کافر ہے ۔ ٭ چوتھی بات : صحیحین میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بروز ِقیامت سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام لباس پہنیں گے۔‘‘[1]
Flag Counter