اس روایت میں کہیں پر بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر تک بھی نہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہننے میں تقدیم حاصل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ مطلق طور پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں ۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ قیامت کے دن سب لوگ بیہوش ہو جائیں گے۔ اور میں سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا تو میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا پایہ پکڑے ہوئے ہیں ۔ تو مجھے معلوم نہیں کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ جائیں گے یا آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس سے مستثنی رکھا تھا۔‘‘ [1]
پس پہلے ہوش میں آنے کی وجہ سے یا پھر مطلق طور پر بیہوش نہ ہونے کی وجہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ موسیٰ علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں ۔
لیکن اگر تفضیل اس اعتبار سے ہو کہ مفضول کو نیچا دیکھا جائے اور اس کے حق میں کمی کی جائے تو ایسی تفضیل ممنوع ہے ۔جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت دینے کی ممانعت آئی ہے۔ ایک آدمی نے آپ سے کہا تھا: (یا خیر البرِیۃِ) اے روئے زمین کے سب سے بہترین انسان! تو آپ نے فرمایا :’’وہ توحضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔
آپ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
((أنا سیِد ولدِ آدم ولا فخر، آدم فمن دونہ تحت لِوائِي یوم القِیامۃِ ولا فخر۔))[2]
’’میں اولاد آدم کا سردار ہوں ؛ اس میں فخر والی کوئی بات نہیں ۔ حضرت آدم اور ان کے بعد کے لوگ بروز قیامت میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے؛ اس میں کوئی فخر والی بات نہیں ۔‘‘
یہی بات تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تفضیل کے بارے میں ہے۔ان میں سے کسی ایک کے مقام و مرتبہ میں کوئی کمی نہ کی جائے؛ اور نہ ہی کسی کو اس کے مقام و مرتبہ سے گرایا جائے۔ یا انہیں کے بارے میں اپنی خواہشات نفس یا جھوٹی باتوں کی پیروی کی جائے۔ جیسا کہ روافض اور نواصب کرتے ہیں جوکہ بعض صحابہ کرام کے حقوق میں بہت کوتاہی اور کمی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
٭ پانچویں بات : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ نُوْرُہُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ بِاَیْمَانِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا اِِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾ [التحریم۸]
|