سوم :....ان سے کہا جائے گا کہ : معلوم شدہ اجماع حجت قطعی ہے سمعی نہیں ۔ خصوصاً جب کہ بہت ساری نصوص بھی اس کے موافق ہوں ۔ بفرض محال اگر کوئی دلیل خلاف اجماع ہو گی تو وہ باطل ہو گی [یا اس سے مدّعا کا اثبات نہیں ہوگا]۔اس لیے کہ ایسا یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا نہیں ہوگا؛ یا اس میں سرے سے کوئی دلیل نہیں ہوگی۔
چہارم:....نص معلوم اور اجماع معلوم کے مابین تعارض ممتنع ہے، اس لیے کہ یہ دونوں حجت قطعی ہیں اور قطعیات میں مدلولات کے وجود کے واجب ہونے کی وجہ سے تعارض جائز نہیں ہے؛ا وراگران میں تعارض ہوجائے تو اس سے اجتماع نقیضین لازم آئے گا۔پس ہر وہ انسان جو ایسے اجماع کا دعوی کرے جو کہ نص شرعی کے خلاف ہو ؛ تو اس صورت میں دو میں سے ایک چیز لازم آتی ہے: یاتو اجماع باطل ہوگا۔ یاپھر نص باطل ہوگی۔ اور ہر وہ نص جس کے خلاف امت کا اجماع ہو جائے تو اس کے خلاف ایک ناسخ نص کا علم ہوتا ہے۔
ایسا نہیں ہوسکتا کہ امت میں معلوم شدہ نص بھی موجود ہو اور اس کے خلاف نص بھی موجود ہو۔یہ بات واقع کے خلاف ہے۔[یعنی جس نص کی مخالفت پر پوری امت جمع ہو جائے وہ دوسری نص سے منسوخ ہوتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ امت میں ایک نص معلوم باقی ہو، وہ منسوخ بھی نہ ہو اور اس کے خلاف اجماع منعقد ہو جائے۔]نص معلوم اور اجماع معلوم دونوں ہی خلافت صدیق رضی اللہ عنہ کے اثبات اور غیر کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں ۔ جب کہ روافض کی نصوص کے جھوٹ ہونے کو ہم اضطراری طور پر جانتے ہیں ؛ اور ان کے جھوٹ ہونے پر بہت سارے دلائل موجود ہیں ۔
شیعہ اور اقتداء شیخین رضی اللہ عنہما :
[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’اہل سنت یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی پیروی کرو۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ:’’ ہم اس روایت کو تسلیم نہیں کرتے۔ مزید برآں یہ ان کی امامت و خلافت پر روشنی نہیں ڈالتی۔ اس حدیث میں ان کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے۔ ہم فقہاء کی بھی اقتداء کرتے ہیں ، اس سے ان کا خلیفہ ہونا لازم نہیں آتا۔ علاوہ ازیں ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما میں بہت سارے مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے، اس لیے ان دونوں کی پیروی ممکن ہی نہیں ۔ نیز یہ روایت مشہور حدیث’’اَصْحَابِی کَالنُّجُوْمِ بأیہم اقتدیتم اہتدیتم‘‘ کے خلاف ہے۔اس کے ساتھ ہی ان کی امامت کے منتفی ہونے پر اہل سنت کا بھی اجماع ہے۔‘‘
[جواب]:ہم کہتے ہیں :اس کا جواب کئی طرح سے دیا جانا ممکن ہے:
پہلی بات : اہل علم محدثین کے اجماع کے مطابق یہ روایت شیعہ کی امامت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پیش کردہ نص سے بہرحال اقوی ہے۔کیونکہ یہ روایت محدثین کی قابل اعتماد کتب میں معروف ہے۔ یہ روایت امام احمد نے مسند میں و ابوداؤدنے سنن میں اور ترمذی نے اپنی جامع میں نقل کی ہے۔ [1]
|