Maktaba Wahhabi

618 - 764
بخلاف ازیں امامت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات میں پیش کردہ نصوص محدثین کی کسی بھی قابل اعتماد کتاب میں موجود نہیں ‘بلکہ ان سب کا ان روایات کے باطل ہونے پر اجماع ہے۔حتی کہ محدث ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ہم نے امامت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی نص نہیں پائی؛سوائے ایک نص کے ‘جو کہ ایک مجہول راوی سے پائی ہے، جو دوسرے مجہول راوی سے نقل کرتا ہے، اس کی کنیت ابو الحمراء ہے ہمیں نہیں معلوم کہ اتنی مخلوق میں وہ کون ہے؟‘‘ یہ بات ممتنع ہے کہ خلافت علی رضی اللہ عنہ کی نص کو تو درست تسلیم کرلیا جائے مگر اس روایت پر قدح کی جائے۔ جہاں تک دلالت کا تعلق ہے تو حجت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ہے : ’’ باللذین من بعدي‘‘ جو میرے بعد ہوں گے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آپ کے بعد ہیں ؛ اور پھر ان کی اقتداء کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ ظالم و مرتد نہ تھے کیونکہ؛ اگر یہ حضرات ظالم و مرتد ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اقتداء کا حکم نہ دیتے اس لیے کہ ظالم و مرتد دوسروں کا پیشوا نہیں بن سکتا۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَا یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِیْنَ﴾ (بقرۃ:۲۴) ’’میرے عہد کو ظالم نہ پاسکیں گے ۔‘‘ اس سے واضح ہوگیا کہ ظالم امام نہیں بن سکتا؛اور اس کی اقتداء نہیں کی جاسکتی۔ جب آپ خودہی اپنے بعد ان دونوں کی اقتداء کرنے کا حکم دے رہے ہیں ؛ تو اقتداء کا تقاضا ہے کہ یہ دونوں امام ہوں ۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی دی جارہی ہے کہ یہ دونوں آپ کے بعد ہوں گے۔ تو واضح ہوا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ائمہ برحق ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جن کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے۔ ٭٭٭ شیعہ مصنف کا یہ کہنا کہ:’’حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے مابین بہت سارے مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے۔‘‘ جواب:معاملہ ہر گز ایسے نہیں ہے۔بلکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف شاذ و نادر مسائل ہی میں پایا جاتا ہے ۔اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ان میں سے کسی ایک کے پاس ایک مسئلہ میں دو روایتیں ہوا کرتی تھیں ۔ مثلاً اس مسئلہ میں کہ جب میت کا دادا زندہ ہو اور اس کے بھائی بھی بقید حیات ہوں تو ترکہ کس طرح تقسیم کیا جائے گا۔اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس دو روایتیں تھیں ۔ ان میں سے ایک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول کے موافق تھی۔ نیز یہ مسئلہ کہ مالفئیکی تقسیم مساوی طور پر کی جائے گی یا اس میں تفاوت درجات کو ملحوظ رکھا جائے گا[ اور کسی ایک کو تفضیل دی جائے گی]۔اس میں کوئی شک نہیں کہ برابر تقسیم کرنا بالکل جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت اور مال فئے تقسیم کیا کرتے تھے۔آپ غنیمت حاصل کرنے والوں اورمستحقین فئے کو برابر دیا کرتے تھے۔اختلاف تفضیل کے
Flag Counter