Maktaba Wahhabi

619 - 764
جواز میں ہے۔ اس میں فقہاء کے بھی دو قول ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی دو روایات منقول ہیں ۔اور صحیح قول مصلحت کے پیش نظر جواز کاہے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار مال غنیمت اور مال فئے کی تقسیم میں ایسا کیا کرتے تھے۔ اور شروع کرنے میں سریہ والوں کو فضیلت دیا کرتے تھے۔ انہیں خمس کے ربع دیا کرتے۔ اور واپسی پر خمس کے بعد ثلث دیا کرتے تھے۔پس اس سلسلہ میں جوکچھ ان دونوں خلفاء نے کیا ؛ وہ بالکل جائز تھا۔ حالانکہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری عمر میں مساوات کا مسلک اختیار کرلیا تھا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا تھا: ’’ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو میں تمام لوگوں کے لیے ایک ہی دروازہ بنا دوں گا۔‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے تفضیل کا مسلک روایت کیا گیا ہے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تسویہ کے قائل تھے۔ ایسی چیزوں میں انکار کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ہاں اگریہ کہا جائے کہ ایسے لوگوں کو فضیلت دی جو کہ فضیلت کے مستحق ن تھے۔ جیسا کہ بعض مواقع کی تقسیم میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر انکار کیا گیا ہے۔جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہمیں کوئی ایسی اطلاع نہیں ملی کہ فضیلت کے مسئلہ پر آپ پر کسی نے انکار کیا ہو۔ حضرت خالد بن ولید کے عزل و نصب میں بھی ان کے مابین اختلاف پیدا ہوا تھا۔ان میں سے ہر ایک نے وہی کیا جو اس وقت کے لحاظ سے مناسب تھا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے زیادہ مناسب یہی تھا کہ آپ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو ذمہ داری تفویض کریں ۔ اس لیے کہ آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نسبت نرم طبیعت کے مالک تھے۔ تو آپ کے نائب کے لیے مناسب تھا کہ وہ نائب عمر رضی اللہ عنہ کی نسب زیادہ طاقتور ہو۔ جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنایا اورذمہ داری تفویض کرنا زیادہ مناسب تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت خالد ہی زیادہ مناسب تھے۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ ٭٭٭ وہ احکام جن کا تعلق کلیۃً شریعت سے ہے؛ ان میں ان حضرات کا اختلاف نادر بلکہ معدوم ہے۔ یا پھر ان میں سے کسی ایک کے پاس ایک مسئلہ میں دو قول ہوتے ہیں۔ نیز ان کو جواب میں یہ بھی کہا جائے گاکہ : اس نص کی روشنی میں ان دونوں حضرات کی اقتداء واجب ہوتی ہے ‘ بھلے وہ کسی چیز میں متفق ہوں یا مختلف۔ تو ان دونوں کے مابین ان مسائل کودیکھا جائے گا جس ان کا اتفاق ہو۔ زیر تبصرہ حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جن مسائل میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما متحد الخیال ہوں ؛ ان کی پیروی کرو۔ مزید برآں کہ جب ان دونوں کی اقتداء کا تقاضا ہے کہ انہیں امام بنایا جائے۔ تو ان کے امام ہونے کی صورت میں ان میں سے ہر ایک کی اطاعت ہی مقصود و مطلوب ہے۔اور ان کی امامت ختم ہوجانے کے بعد ان کی اقتداء اس صورت میں ممکن ہے کہ جب ان کے مابین کسی مسئلہ میں نزاع ہو تو متنازعہ مسئلہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے۔
Flag Counter