[اراداہ الٰہی کی اقسام]:
فرقہ قدریہ ( منکرین تقدیر) کے قول کے مطابق یہ بات اور بھی واضح ہے۔ اس لیے کہ قدریہ کے نزدیک اﷲکے ارادہ کے لیے وجود مراد ضروری نہیں ۔ بلکہ بعض اوقات وہ ارادہ کرتا ہے اور وہ چیز وقوع میں نہیں آتی اور بعض دفعہ وہ چیز ظہور پذیر ہوتی ہے جس کا وہ ارادہ نہیں کرتا۔
یہ رافضی اور اس کے امثال قدریہ وہ اس آیت :﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ ﴾ سے کیسے اپنی مراد کے واقع ہونے پر پر استدلال کرتے ہیں ؟ کیا شیعہ اپنافاسد قانون بھی بھول گئے؟
ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا تھا کہ تمام اہل زمین ایمان لے آئیں ‘ مگر اللہ کا ارادہ پورا نہ ہوسکا۔
تقدیر کا اثبات کرنے والے [اہل سنت] کی رائے میں کتاب اللہ میں ارادہ کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ ارادہ شرعیہ دینیہ: جو اﷲتعالیٰ کی محبت و رضا کو متضمن ہے جیسا کہ مذکورہ صدر آیات ہیں :
۲۔ ارادہ کونیہ قدریہ: یہ اﷲتعالیٰ کی خلق و تقدیر کو شامل ہے۔
ارادہ کی پہلی اقسام کی مثالیں جیسا کہ سابقہ آیات گزر چکیں ۔
دوسری قسم کی مثالیں :اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ ﴾ (الانعام:۱۲۵)
’’سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے جس کو گمراہ رکھنا چاہے اس کے سینے کو بہت تنگ کر دیتا ہے جیسے کوئی آسمان پر چڑھتا ہے۔‘‘
اورنوح علیہ السلام کا اپنی قوم سے فرمان ہے:
﴿وَ لَا یَنْفَعُکُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَکُمْ اِنْ کَانَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَکُمْ ﴾ [ھود۳۴]
’’تمہیں میری خیر خواہی کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی، گو میں کتنی ہی تمہاری خیر خواہی کیوں نہ چاہوں ، بشرطیکہ اللہ کا ارادہ تمہیں گمراہ کرنے کا ہو ۔‘‘
بہت سارے مشبّہ اور قدریہ ارادہ کی صرف ایک ہی قسم شمار کرتے ہیں ۔جیسا کہ ارادہ اور محبت کو بھی ایک ہی چیز کہتے ہیں ۔ پھر قدریہ آیات تقدیر میں واضح ارادہ [بمعنی تقدیر ] کی نفی کرتے ہیں اور دوسرا گروہ ایک ارادہ بمعنی تشریع کی نفی کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ہر وہ چیز جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہو کہ یہ مراد ہے تو اس مراد کا پورا ہونا ہر حال میں ضروری ہے۔
جب کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ مؤمنین کی توبہ قبول کرنا اور انہیں پاک کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن لوگوں میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو توبہ کرتے ہیں [تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرتے ہیں ] اور کچھ لوگ توبہ نہیں کرتے۔ ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو پاک و صاف ہوجاتے ہیں اور کچھ پاک نہیں ہوتے۔
|