سنن میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت زیادہ مشہور ہے۔[1]مگر اس میں عصمت و امامت کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا مضمون دو جگہ پر پایا جاتا ہے:
پہلا مقام : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾
یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے :
﴿ مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ ﴾
’’اللہ تعالیٰ تمہیں کسی حرج میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے ۔‘‘
مندرجہ ذیل آیات بھی اسی قبیل سے ہیں :
۱....﴿ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
’’اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ کوئی تنگی نہیں کرنا چاہتا ۔‘‘
۲....﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَ یَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ﴾ (النساء:۲۶)
’’اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے خوب کھول کر بیان کرے اور تمہیں تم سے پہلے کے (نیک) لوگوں کی راہ پر چلائے اور تمہاری توبہ قبول کرے اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘
۳....﴿وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا ﴾ (النساء:۲۷)
’’اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے اور جو لوگ خواہشات کے پیرو ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم اس سے بہت دور ہٹ جاؤ ۔‘‘
ان آیات میں ارادہ سے مراد محبت و رضا ہے۔اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے ایسا مشروع کیا ہے ‘ اور انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔اس میں کہیں بھی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کچھ پیدا کردیاہے اور یہ مطلب بھی نہیں کہ اس نے یہ بات مقدر کردی ہے یا اسے ایجاد کردیا ہے۔اورنہ ہی یہ مقصد ہے کہ ہر حال میں ایسا ہوکر ہی رہے گا۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے اﷲ یہ میرے گھر والے ہیں تو ان سے نجاست کو دور کردے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اﷲتعالیٰ کے دربار میں یہ التجا کی ہے کہ ان سے نجاست کو دور کردے اورانہیں ہر طرح سے پاک کردے۔ اگر آیت کا مطلب ہوتا کہ اہل بیت کو پاک کیا جا چکا ہے تو دعا کی حاجت نہ تھی۔
|