اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایسا کرنے سے منع کیا ہے ۔پس دنیا انہیں حق کو مستحق تک پہنچانے سے غافل نہ کردے۔ اور نہ ہی مستحق سے اس کا حق روکے۔ یہ آخری بات ہے جو ثابت کرنا اس مقدمہ میں ہمارا مقصود تھا۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[سلسلہ وار جوابات ]
جواب:اس سے یہ کہا جائے گا کہ:’’اس کلام میں اتنا زیادہ جھوٹ اور افتراء پرداوی ہے اور بہتان تراشی ہے کہ اتنا جھوٹ اسلامی فرقوں میں سے کسی ایک بھی دوسرے فرقہ کے ہاں نہیں پایا جاتا۔ اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ رافضی یہودیوں سے بہت زیادہ قوی مشابہت رکھتے ہیں ۔ اوریہودی بہتان تراش قوم ہیں ۔جو چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں سے پھونکیں مار کر اللہ تعالیٰ کے نور کو گل کردیں ‘مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ اپنے نور کو پورا کرنے کا ہے بھلے یہ بات کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرتی ہو۔
٭ باقی صحابہ کرام پر ائمہ اسلام حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت و عظمت ہرادنی عقل رکھنے والے انسان پر بھی ظاہر ہے۔ مگر رافضی حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنا چاہتے ۔ یہ لوگ ان آیات کے مصداق ہیں :
﴿فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلٰی اللّٰہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِِذْ جَائَہُ ﴾ [الزمر۳۲]
’’پھر اس سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور سچ کو جھٹلایا جب وہ اس کے پاس آیا۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے :
﴿فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ ﴾ [یونس ۱۷]
’’پھر اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو اللہ پر کوئی جھوٹ باندھے، یا اس کی آیات کو جھٹلائے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ مجرم لوگ فلاح نہیں پاتے۔‘‘
ان کے علاوہ اس طرح کی دوسری آیات بھی ہیں ۔
رافضی تمام فرقوں سے زیادہ حق بات کو جھٹلانے والے اور جھوٹ کی تصدیق کرنے والے ہیں ۔اس باب میں پوری امت میں کوئی دوسرا ان کے برابر نہیں ہوسکتا۔
........[اب سلسلہ وار جوابات دیے جاتے ہیں ]........
[غارکی فضیلت]:
٭ رافضی کا کہنا ہے کہ: ’’ غار کے واقعہ میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔‘‘
٭ ہم شیعہ مصنف کے اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ:’’ غار کے واقعہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت نص قرآنی کی روشنی میں واضح ہوتی ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ ۴۰]
’’ جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے :گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
|