Maktaba Wahhabi

622 - 764
اس سے اپنی روزی حاصل کرتا ۔ اگر ابو بکر غنی و مالدار ہوتا تو پہلے اپنے باپ کو کفایت کرتا۔ لیکن ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ عہد جاہلیت میں ایک پیشہ ور معلم تھا۔‘‘ اوراسلام میں درزی کا پیشہ اختیار کیا ۔ جب آپ لوگوں کے ولی الامر بنے تو انہوں نے آپ کو درزی کا کام کرنے سے روک دیا‘ تو کہنے لگے: مجھے تو روزی کی ضرورت ہے۔ اس پر لوگوں نے آپ کے لیے بیت المال سے تین درہم یومیہ وظیفہ مقرر کیا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کی وجہ سے غنی تھے۔ اس وقت جنگ یا لشکر کی تیاری کی ضرورت نہ تھی۔ اور ہجرت کے بعد تو ابوبکر کے پاس بالکل کچھ بھی نہیں تھا۔ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہوتے تو ان کے بارے میں اسی طرح قرآن نازل ہوتا جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آیت﴿ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ﴾ اتری تھی۔ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں سے افضل و اشرف ہستی ہیں جن پر امیر المؤمنین نے اپنا مال خرچ کیا۔ اور جس مال کے خرچ کرنے کا یہ لوگ دعوی کرتے ہیں تو اس کے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہیں ہوئی ؛ اس سے ان کے دعوی کا جھوٹ ہونا ثابت ہوگیا۔ ٭ ’’نماز میں آپ کو امامت کے لیے آگے بڑھانے کی بات غلط ہے۔ اس لیے کہ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے لیے اذان دیدی؛ توعائشہ نے حکم دیا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام بنایا جائے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ راحت ہوئی تو آپ نے تکبیر کی آواز سنی۔توآپ نے پوچھا: لوگوں کونماز کون پڑھا رہا ہے۔کہنے لگے : ابوبکر ۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے باہر لے چلو۔‘‘ حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان چلتے ہوئے باہر نکلے ۔‘‘ آپ نے ابوبکر کو قبلہ سے ہٹا دیا۔اور انہیں امامت سے معزول کرکے خود نماز پڑھانے لگے۔‘‘[1] رافضی [سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے ] کہتا ہے: ’’ ان لوگوں کے دلائل کا یہ حال ہے۔عقل مند کو چاہیے کہ وہ انصاف کی نظر سے دیکھے اور اتباع حق کا قصد کرے۔اتباع ہوی سے باز آئے۔ اپنے آباء و اجداد کی تقلید کو ترک کردے۔
Flag Counter