Maktaba Wahhabi

594 - 764
بلکہ مسیلمہ کے ارتدار اور حضرت صدیق اکبر کے اس کے ساتھ قتال کا تواتر لوگوں میں جمل اورصفین ؛ اور طلحہ و زبیر کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال ؛اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ اور دیگر لوگوں کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے رہ جانے کے تواتر سے بڑھ کر مشہور ہے۔ صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مسیلمہ کذاب نے آ کر عرض کیا کہ:’’ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد مجھے خلافت عطا کر دیں تو میں ان کا تابع ہو جاتا ہوں اور وہ اپنی قوم کے بہت لوگوں کو اپنے ساتھ لایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف چلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی کا ٹکڑا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسیلمہ کذاب کے پاس معہ اصحاب جا کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا : ’’اگر تو مجھ سے بقدر اس لکڑی کے ٹکڑے کے طلب کرے تو میں تجھ کو نہ دوں گا اور خدا تعالیٰ کا جو حکم تیرے بارے میں ہو چکا ہے تو اس سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ اور اگر تو کچھ روز زندہ رہا تو خدا تجھ کو ہلاک کر دے اور یقیناً میں تجھ کو وہی شخص سمجھتا ہوں جس کی نسبت میں نے خواب میں دیکھا ہے۔اور یہ ثابت رضی اللہ عنہ ہے جو تمہیں میری طرف سے جواب دے گا۔‘‘ پھر آپ وہاں سے پلٹ گئے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :’’ اور یقیناً میں تجھ کو وہی شخص سمجھتا ہوں جس کی نسبت میں نے خواب میں دیکھا ہے‘‘کے بارے میں پوچھا؛تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ: ’’ میں سو رہا تھا تو میں نے اپنے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے تو مجھے فکر ہوئی اور خواب میں وحی آئی کہ آپ ان کو پھونک دیجئے، میں نے ان کو پھونک دیا تو وہ اڑگئے میں نے اس کی تعبیر ان دو کذابوں سے لی جو میرے بعد ظاہر ہوں گے پس ان میں سے ایک عنسی اور دوسرا یمامہ کا رہنے والا مسیلمہ کذاب تھا۔‘‘[1] [حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور اہل ارتداد کا قتل]: [اشکال]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: ’’ عمر رضی اللہ عنہ نے مرتدین کے خلاف جنگ آزما ہونے پر اعتراض کیا تھا۔‘‘ [جواب]: یہ بہت بڑا جھوٹ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ پرصریح بہتان ہے۔بلکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا [مرتدین ] مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ جنگ پر اتفاق تھا۔لیکن ایک دوسرا گروہ تھا جواسلام کا اقرار کرتے تھے ؛ مگر زکواۃ ادا کرنے کا انکار کرتے تھے ‘ ان کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلاشبہ توقف کیا تھا۔اس لیے کہ شروع میں آپ کے دل میں شبہ تھا مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تبادلہ افکار کرنے پر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے قتال کے واجب ہونے کوواضح کیا؛ تو بعد آپ نے اپنے زاویۂ نگاہ سے رجوع کر لیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ متفق ہو گئے تھے۔یہ قصہ بڑا
Flag Counter