نسبت زیادہ پاس ہے ۔ جہاں تک ہمارے مابین مالی تنازعات کا تعلق ہے میں نے ان میں حق سے انحراف نہیں کیا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ضمن میں جو کچھ کرتے دیکھا وہی کیا۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میں آج بعد دوپہر آپ کی بیعت کروں گا۔‘‘
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز پڑھ کر منبر پر کھڑے ہوئے۔ مسنون خطبہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت اور بیعت نہ کرنے کی وجہ بیان کی۔اور جو عذر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پیش کیے تھے وہ لوگوں کے سامنے پیش کیے ‘حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے استغفار کی ‘اور ان کے لیے عظمت و فضیلت کی گواہی دی۔
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ مسنونہ کے بعد تقریر کرتے ہوئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ رشک کی وجہ سے میں نے بیعت میں تاخیر نہیں کی تھی۔ نہ میں آپ کے خدادادفضائل کا منکر ہوں ۔ بات یہ تھی کہ میں اپنے کو خلافت کا اہل خیال کرتا تھا ؛جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلافت پر فائز ہو گئے تو ہم سمجھے کہ آپ نے ہمارا حق ماراہے؛ یہ بات ہمارے دلوں میں تھی ؛ اس لیے ہم آپ سے ناراض ہوگئے ۔ مسلمان یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور انھوں نے کہا:’’ آپ نے ٹھیک کیا‘‘ جب آپ نے امر بالمعروف کی طرف رجوع کرلیا تو اس بات سے مسلمان حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔[1]
ایک یا دو اشخاص کی مخالفت انعقاد خلافت کے لیے مضر نہیں :
اس میں شبہ نہیں کہ امامت کے لیے جو اجماع معتبر ہے اس میں ایک یا دو آدمیوں کایا کسی چھوٹے گروہ کا تخلف ضرر رساں نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا تو کسی خلیفہ کی امامت و خلافت کبھی منعقد نہ ہوتی ۔امامت ایک امر معین ہے۔ کبھی ایسا بھی ہو سکتاہے کہ کوئی انسان ایسی کسی خواہش کی وجہ سے بھی پیچھے رہ سکتا ہے جس کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہ ہو۔جیسا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بیعت نہ کی تھی۔اس لیے کہ آپ کی خواہش یہ تھی کہ انصار کے امیر آپ ہوں ۔مگر ایسا نہ ہوسکا؛ تو یہ بات آپ کے دل میں رہ گئی۔پس جو انسان خواہش نفس کی وجہ سے کوئی چیز چھوڑ دے ؛ تو اس کا یہ فعل کوئی مؤثر نہیں ہوتا۔[بخلاف عام شرعی احکام پر اجماع عام کے؛ جیسے : واجب ‘ حلال و حرام اورمباح وغیرہ کے بارے میں جو اجماع منعقد ہوتا ہے، اس میں اختلاف ہے کہ آیا ایک یا دو اشخاص کی مخالفت معتبر ہے یا نہیں ؟ اس ضمن میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے دو قول منقول ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ ایک یا دو آدمیوں کی مخالفت معتبر نہیں ہے، محمد بن جریر طبری وغیرہ کا قول بھی یہی ہے ۔ امام احمد کا دوسرا قول یہ ہے کہ احکام میں ایک یا دو شخصوں کی مخالفت معتبر ہے۔اکثر علماء اسی قول پر ہیں ۔
عام شرعی احکام اور امامت کے مابین فرق یہ ہے کہ : شرعی حکم عام ہوتا ہے جو کہ سب کو شامل ہوتا ہے۔ اور شرعی حکم
|