Maktaba Wahhabi

667 - 764
کہ : جب اس کتاب کے رافضی مصنف نے اس کے سامنے اپنا جھوٹا کلام پیش کیا ؛ اور ابو بکر پر زبان طعن دراز کی ؛ اور کہا: ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے اورآپ سے بغض رکھتے تھے؛ مگر اس کے ساتھ رافضی یہ بھی کہتے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب سے عظیم سفر سفرہجرت میں آپ کو خوف کی وجہ سے اپنے ساتھ ہمراہی بنایا ۔تو اس کے جواب میں اس بادشاہ نے ایسی بات کہی جس کے بعد ان روافض کو ایسے بیہودہ جھوٹ گھڑنے اور بولنے سے رک جانا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی باتوں سے مبراء و منزہ رکھاہے۔لیکن رافضیوں کے اس من گھڑت جھوٹ نے اسے یہ کلمہ کہنے پر مجبور کیا ؛ اس نے کہا: ’’ پھر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت کم عقل تھے ۔‘‘ [معاذ اللّٰہ] ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کوئی رافضیوں کی بتائی ہوئی باتوں پر چلتا ہے وہ قلیل العقل ہی ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اورصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ایسی باتوں سے بری رکھا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ رافضیوں کے کلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قدح لازم آتی ہے۔ صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عموم و خصوص: یہ بات واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بھی عموم و خصوص ہے۔جیسا کہ محبت اور ولایت میں اور ایمان میں اور ان دوسری صفات میں ہوتا ہے جن میں قدر ‘ نوع اور صفات کے اعتبار سے لوگ آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں ۔اس کی دلیل صحیح بخاری کی روایت ہے ؛حضرت خالد بن ولید اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے مابین کچھ اختلاف ہوگیا‘ تو حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کوکچھ برا بھلا کہہ دیا۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میرے اصحاب کو برا نہ کہو اس لیے کہ اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ تبارک و تعالی کی راہ میں خرچ کرے تو میرے اصحاب کے ایک مد(سیر بھر وزن)یا آدھے(کے ثواب) کے برابر بھی(ثواب کو) نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[صحیح بخاری:ج2:ح887] خالد و عبدالرحمن رضی اللہ عنہما کانام لینے میں امام مسلم منفرد ہیں ۔یہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خالد رضی اللہ عنہ اور ان جیسے دوسرے لوگوں سے فرما رہے ہیں میرے صحابہ کوبرابھلا نہ کہو۔یعنی عبدالرحمن بن عوف اور ان کے امثال کو ۔ اس لیے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور ان کے امثال سابقین اولین میں سے ہیں جو کہ فتح سے پہلے ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔یہ لوگ اہل بیعت رضوان ہیں ۔یہ حضرات ان لوگوں کی نسبت خاص ہیں اورافضل ہیں جو صلح حدیبیہ ؛یعنی اہل مکہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصالحت ‘کے بعد اسلام لائے ۔ان میں حضرت خالد بن ولید ‘ عمرو بن العاص ‘ اور عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہم اور ان کے امثال صحابہ شامل ہیں ۔یہ ان لوگوں کی نسبت سبقت رکھتے ہیں جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے؛ اور انہیں طلقاء کا نام دیا گیا؛ جیساکہ سہیل بن عمرو ؛ حارث بن ہشام؛ ابو سفیان بن حرب ؛ اور اس کے دونوں بیٹے یزید اور معاویہ ؛ اور ابو سفیان بن الحارث؛ عکرمہ بن ابی جہل؛ اورصفوان بن امیہ رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کرام۔حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی تو جو علم کے لحاظ سے ان لوگوں پر سبقت لے گئے جو ان سے پہلے ایمان لائے
Flag Counter