غزوۂ بنی مصطلق میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بنی مصطلق میں سے مالک اور اس کے بیٹے کو قتل کردیا اور بہت سے لوگوں کو قیدی بنا لیا تھا۔ان جملہ قیدیوں میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا بنت الحارث بن ابی ضرار بھی تھیں ۔جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے اختیار کرلیا ۔ آپ کا والد اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض گزار ہوا: یارسول اللہ ! میری بیٹی انتہائی شریف خاتون ہے؛ اسے قیدی نہیں بنایا جاسکتا ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا کہ اسے اختیار دیا جائے۔ اس کے والد نے کہا: آپ نے بہت اچھی او رخوبصورت بات کہی ہے۔ پھر اس نے کہا: اے میری بیٹی اپنی قوم کو رسوا نہ کرنا۔ اس پر حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’ میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں ۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ:سب سے پہلے جس بھی منقول سے احتجاج کیا جائے‘ اس کی سند بیان کرنی ضروری ہوتی ہے۔ یا پھر اسے ایسی کتاب کی طرف منسوب کیا جائے جس سے حجت قائم ہوسکتی ہو۔ وگرنہ اس واقعہ کا علم کیسے ہوگا۔
پھریہ بھی کہتے ہیں : یہ واقعہ روافض کی بے اصل و بے اسنادمن گھڑت مرویات میں شامل ہے۔[ شیعہ کی بیان کردہ روایات یا تو بلا اسناد ہوتی ہیں یا ان کے راوی مجہول، کذاب اور متہم بالکذب ہوتے ہیں ]۔ یہ واقعہ کسی سیرت نویس نے نہیں لکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غزوۂ بنی مصطلق میں یہ کارنامہ سرانجام دیا ؛اورنہ ہی حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کو قیدی بنایا تھا۔ جویریہ رضی اللہ عنہا کو جب قیدی بنایا گیا تو انھوں نے بدل کتابت ادا کرکے آزاد ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رقم ادا کرکے ان کو آزاد کرالیا اور پھر ان کے ساتھ عقد نکاح باندھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتۂ مصاہرت کے احترام میں سب لوگوں نے اپنے اپنے قیدی رہا کردیے۔اور کہنے لگے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال ہیں ۔[1] نہ ہی ان کا والد آیا اور نہ ہی کسی چیز میں کوئی اختیار دیا۔
سنن ابو داؤد میں ہے:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: جویریہ رضی اللہ عنہا بنت حارث بن المصطلق (جنگ میں پکڑنے کے بعد مال غنیمت کی تقسیم میں) حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ یا انکے چچا زاد بھائی کے حصہ میں آئیں ۔ انہوں نے اپنے نفس(کو آزاد کرانے پر)بدل کتابت دینے کا معاہدہ کر لیا۔ اور وہ ایک خوبصورت ملاحت والی عورت تھیں جن پر نظریں پڑتی تو نظروں میں بھا جاتی تھیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :’’ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدل کتابت کے بارے میں سوال کرتی ہوئی آئیں ۔جب وہ دروازہ میں کھڑی ہو گئیں تو میں نے انہیں دیکھا اور ان کے کھڑے ہونے کو ناپسند کیا۔ اور مجھے معلوم تھا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ویسے ہی دیکھیں گے جیسے میں نے دیکھا ہے۔حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کہنے لگی: یا رسول اللہ! میں جویریہ بنت الحارث ہوں اور جو میرا پہلے حال تھا، وہ آپ پر مخفی نہیں ہے۔ اور میں ثابت بن قیس بن شماس کے حصہ میں آئی ہوں ؛ اور میں نے اسے اپنے نفس (کی آزادی پر)معاہدہ کتابت کر لیا ہے ۔پس میں آپ کے پاس اپنے بدل کتابت کے بارے میں سوال کرنے آئی ہوں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارے
|