ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ تھے۔
یہی حال شیعہ کا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امام معصوم ؛ یا نبی یا پھر خدا تک قرار دیتے ہیں ‘ اور باقی خلفاء رضی اللہ عنہم کو اشتر نخعی؛ اوراس جیسے ان لوگوں سے بھی کم تر قرار دیتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر برسر پیکار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جہالت او ردروغ گوئی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ اسے احاطہ ء تحریر میں نہیں لایاجاسکتا۔ ان کا بڑا سہارا جھوٹی منقولات؛ متشابہ الفاظ ؛ فاسد قیاس ؛اور اس طرح کی چیزیں ہیں مگر اس پر مستزاد یہ کہ سچی منقولات اور تواتر؛ واضح دلائل و نصوص اور صریح معقولات کا دعوی کرتے ہیں ۔
امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آٹھویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کی آٹھویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاۃِ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ۲۰۷)
’’اور بعض لوگ وہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں ۔‘‘
ثعلبی کہتے ہیں : جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا ارادہ کیا تو قرض اور امانتوں کی ادائیگی کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مکہ میں ہی رہنے دیا۔ جس رات آپ غار کی جانب چلے اور کفار قریش نے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ آپ کی سبز چادر اوڑھے آپ کے بستر پر سو رہیں ۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’یاعلی !میری سبز حضرمی چادراوڑھ کر میرے بستر پر لیٹ جاؤ کفار آپ کو کوئی تکلیف نہیں دے سکیں گے۔ان شاء اللہ۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تعمیل ارشاد کردی۔ اﷲتعالیٰ نے جبرئیل و میکائیل کی طرف وحی کی کہ میں نے تمہارے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کیاہے؛ اور ایک کی عمر دوسرے سے طویل کردی ہے ۔ بتائیے تم میں سے کون اپنی زندگی کا حصہ دوسرے کو عطا کرتا ہے۔ دونوں نے جینے کو پسند کیا اور کوئی بھی ایثار نہ کر سکا۔ اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’ تم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تقلید نہ کی۔میں نے محمد و علی کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا ۔ علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سو گئے اور ان کے لیے یہ ایثار قبول کیا۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ نے دونوں کوزمین پر اترنے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا۔ جبرائیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سر کے پاس کھڑے ہو گئے اور میکائیل پاؤں کے پاس۔ جبرائیل نے کہا: ’’ شاباش! اے علی! تیرے جیسا اور کون ہو گا۔ اﷲتعالیٰ تیری وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عازم مدینہ تھے کہ مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی:﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاۃِ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ۲۰۷)
’’اور بعض لوگ وہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں ۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں نازل ہوئی جب آپ مکہ سے غار ثور کی طرف جارہے تھے۔اس فضیلت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ منفرد ہیں ۔بنا بریں یہ واقعہ باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر آپ کی فضیلت پرزبردست دلیل ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ ہی امام ہیں ۔ (شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا۔)
|