جواب:اس کا جواب کئی طرح سے ہے :
پہلی بات: ....ہم شیعہ مصنف سے اس واقعہ کی صحت نقل کا مطالبہ کرتے ہیں ۔کسی روایت کو ثعلبی یا اس کے امثال کا نقل کر لینا حجت کے لیے کافی نہیں ؛ بلکہ ان کی طرف منسوب کرنے میں ہی اس کا جھوٹ ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ان کی روایت باتفاق شیعہ و اہل سنت حجت نہیں ہے۔اس لیے کہ یہ بہت ہی متأخر مرسل ہے۔اور روایت کی اسناد ذکر نہیں کرتا۔اس کی روایات میں اسرائیلیات ؛اسلامیات اور ایسے امور پائے جاتے ہیں جن کا موضوع ہونا صاف ظاہر ہوتا ہے۔ اگرچہ ثعلبی خود جان بوجھ کر جھوٹ نہ بھی بولتا ہو۔
دوسری بات:....یہ روایت باتفاق محدثین و مفسرین اور سیرت نگاروں کے جھوٹ ہے ۔[ اس لیے اسے بطور حجت پیش نہیں کیا جاسکتا ]۔اور حدیث کی صحت جاننے کے لیے ان ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔
تیسری بات:....حقیقت یہ ہے کہ جب نبی کریم رضی اللہ عنہ نے ہجرت فرمائی۔ قریش مکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قطعی طور پر بے تعلق تھے۔ ان کا اصلی مطلوب نبی کریم رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے۔ قریش مکہ نے انعام بھی انہی دو حضرات کو پکڑنے والے کے لیے مقر ر کیا تھا ۔ جیسا کہ روایات صحیحہ میں مذکور ہے؛ جن کی صحت میں کسی بھی عاقل کو ادنیٰ شک بھی نہیں ہوسکتا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ کے بستر پر سلانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ قریش اس وہم میں مبتلا رہیں کہ آپ گھر ہی میں ہیں اور آپ کی تلاش نہ کریں ۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وہاں پر سوئے ہوئے پایا ؛ توقریش پر اپنی ناکامی کا راز فاش ہوا۔ تاہم انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کچھ ایذاء نہ پہنچائی۔ ان سے صرف یہ دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔یہاں پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی کی بھی طرف سے ہر گز کوئی خوف ہی نہیں تھا۔خوف تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں تھا۔ اگر انھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی پرخاش ہوتی تو وہ انھیں ضرور تکلیف پہنچاتے۔ کفار مکہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تعرض نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا۔توپھرکون سی جاں نثاری اور قربانی کا ذکر کیا جارہاہے ؟
جس شخص نے قصداً آپ کا دفاع کیا؛ اور اس کے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھے؛وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ،خود آپ کو بھی خطرہ لاحق تھا ۔ مگر پھر بھی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے نقطہ خیال سے دوران سفر کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہوتے اور کبھی پیچھے۔[1] جب آپ کو پیچھے تلاش کرنے والوں کا خیال آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو لیتے ؛ اور جب آگے گھات کا خیال آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہوجاتے۔ اور آگر نکل کر خبر لیتے کہ کہیں کوئی انتظار میں یا گھات لگائے ہوئے تو نہیں ۔جب کوئی خوف محسوس ہوتا توآپ چاہتے کہ یہ پریشانی انہی پر آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ آئے ۔ [2]
|