Maktaba Wahhabi

124 - 764
بڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دشمنی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا وہ انسان تھا جو اسلام ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت سے بغض رکھتا تھا۔اللہ اور اس کے رسول سے اور دین اسلام سے بغض رکھنے کی وجہ سے اس قاتل نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوقتل کرنے والا نمازی ؛ روزہ دار ؛ اور قرآن کی تلاوت کرنے والا انسان تھا؛ اور وہ آپ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے قتل کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی تئیں اسی محبت کی وجہ سے اس نے آپ کو قتل بھی کیا۔ حالانکہ وہ اپنے اس اعتقاد میں گمراہ اور بدعت پر تھا۔ مقصود یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے کی نسبت زیادہ کھلا ہوا نفاق پایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ رافضی اس امت میں سب سے بڑے منافق ہونے کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس امت کا فرعون کہتے ہیں ۔اور آپ کے قاتل معلون ابو لؤلؤ فیروز مجوسی سے محبت کا دم بھرتے ہیں ؛ حالانکہ وہ بہت بڑا کافر اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا۔ [شیعہ اس مجوسی کو اپنا باپ تصور کرتے ہوئے اسے ’’بابا‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں ]۔ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سولہویں دلیل: [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’سولہویں دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے: ﴿ وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَo اُوْلٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ﴾ (الواقعہ۱۰۔۱۱) ’’اور جو آگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہیں ۔وہ بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں ۔‘‘ ابو نعیم نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ: اس امت میں سے سابق حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘فقیہ ابن المغازلی الشافعی نے امام مجاہد سے اس آیت ﴿ وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ ﴾کی تفسیر میں روایت کیا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : یوشع بن نون حضرت موسیٰ علیہماالسلام کی طرف سبقت لے گئے۔ حضرت موسیٰ حضرت ہارون کی طرف سبقت لے گئے ۔ اور صاحب یس حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف سبقت لے گئے۔ او رحضرت علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سبقت لے گئے ۔‘‘ یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو حاصل نہ ہوسکی‘ توپھر آپ ہی امام ہونگے ۔‘‘ [شیعہ کا بیان ختم ہوا] جواب:اس کے کئی ایک جواب ہیں : پہلی بات:....ہم کہتے ہیں کہ یہ روایت صحیح نہیں ۔ ہم اس کی صحیح سند پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ‘ اس لیے کہ بہت ساری ایسی جھوٹی باتیں بھی ہوتی ہیں جنہیں مصنفیں [نوٹ کے طور پر ] روایت کرلیتے ہیں ۔ دوسری بات:....اس روایت کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف نسبت کرنا بھی باطل ہے۔ اگر بشرط صحت آپ سے یہ روایت ثابت بھی ہوجائے ؛ تب بھی حجت نہیں ہوسکتی ۔اس لیے کہ دوسری روایات میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے قوی لوگوں نے اس سے اختلاف کیا ہے۔
Flag Counter