تیسرے انسان کا ہونا بالاجماع منتفی ہے۔ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ بھی اس قسم میں شامل ہیں ۔
اس لیے کہ جب آپ کو مال حاصل ہوگیا تھا تو آپ تزکیہ وطہارت کے حصول کے لیے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ شروع اسلام کے ایام میں اس وقت خرچ کیا کرتے تھے جب اس کی بہت سخت ضرورت تھی۔ پس آپ اس وصف ِ اتقی میں دوسرے لوگوں سے بڑھ کر کامل و اکمل ہوئے ۔
مزید برآں یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایسے مواقع پر آگے بڑھاتے تھے جہاں کسی دوسرے کی شراکت ممکن نہیں ہوا کرتی تھی؛ جیسے نماز اورحج میں اپنا نائب بنانا؛ سفر ہجرت میں اپنی ہمراہی کے لیے صرف ان کا انتخاب کرنا؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں آپ کا تقریر کرنا؛ آپ کو تقریر کی اجازت ملنا؛ نیز فتوی دینا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر رضامندی کا اظہار کرنا؛اور ان کے علاوہ دیگر اتنے خصائص ہیں جن کایہاں پر بیان طوالت کاموجب ہوگا ۔
جو انسان ان اوصاف میں اکمل ہو ‘ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا اور محبوب ہوگا۔یہ بات بے شمار دلائل کی روشنی میں ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مقام صدیقیت میں تمام صحابہ کرام سے بڑھ کر عزت والے اور مقدم تھے۔ اور آپ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ترین ہستی ہیں ۔ اور جو ان اوصاف میں کامل ہووہی افضل ہوگا۔
نیز یہ کہ صحیح سند کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے افضل ترین لوگ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔‘‘
یہ بات اتنی مشہور ہے کہ حدِ تواتر کو پہنچی ہوئی ہے۔ اور آپ نے ایسے انسان کو کوڑے لگانے کی وعید سنائی تھی جو افتراء پردازی کرتے ہوئے آپ کو ان حضرات پر فضیلت دے ۔ اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔ اور ظاہر بات ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ بات دو ٹوک طور پر اسی صورت میں کہہ سکتے ہیں جب آپ کو اس کاعلم حاصل ہو چکا ہو۔
مزید برآں یہ کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تقدیم دینے پر اجماع ہے ‘ جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ سے افضل ہیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان دونوں سے افضل ہیں ۔ کئی دوسرے مواقع پر یہ مسئلہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکا ہے۔ جس کا کچھ حصہ یہاں بھی گزر چکاہے ۔لیکن یہاں پر اس کا ذکر پرندہ والی حدیث کے جھوٹ کو طشت ازبام کرنے کے لیے کیا گیاہے ۔
فصل:....[امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نویں دلیل: حدیث: سلام امارت]
[اشکال]:شیعہ لکھتا ہے : ’’ اثباتِ امامت ِ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نویں حدیث جمہور علماء نے روایت کی ہے کہ آپ نے صحابہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پرامیر المؤمنین ہونے کی وجہ سلام بھیجنے کا حکم دیا اور فرمایا: آپ سید المسلمین امام المتقین اور پانچ کلیانے گروہ کے قائد ہیں ؛ اور فرمایا: آپ میرے بعد ہر مؤمن کے ولی ہیں ؛نیز آپ کے حق میں یہ بھی فرمایا کہ: ’’بیشک علی
|