مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں ‘ اور آپ ہر مؤمن مرد و عوت کو اس کی جان سے بڑھ کر محبوب ومقدم ہیں ۔پس ان نصوص کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی خلیفہ و امام ہوں گے۔یہ روایت اس باب میں واضح ہے ۔ ‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]: اس کا جواب کئی وجوہات سے دیا گیا ہے :
٭ پہلا جواب : ہم شیعہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس روایت کی اسناد بیان کریں اور اس کی صحت ثابت کریں ۔ شیعہ مصنف نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کو کسی بھی کتاب کی طرف منسوب نہیں کیا ۔شیعہ مصنف کا یہ کہناکہ :’’ اسے جمہور نے روایت کیا ہے ۔‘‘ سرا سر جھوٹ پر مبنی ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ روایت صحاح اور قابل اعتماد مسانیدوسنن اور دوسری معتمد کتب میں موجود نہیں ۔اگرچہ اسے بعض اندھیری رات کے مسافروں نے روایت بھی کیا ہے؛ تو اس جیسی اور بھی روایات انہوں نے جمع کی ہیں ۔اس جیسی روایات باتفاق مسلمین حجت نہیں ہوسکتیں کہ لوگوں پر ان کی اتباع واجب ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر جھوٹ بولنے کو حرام قرار دیا ہے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی بات نہیں کہہ سکتے جو ہم جانتے نہ ہوں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
((مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ))۔
’’ جو انسان مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے ‘ اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم کی آگ میں بنالے ۔‘‘ [1]
٭ دوسرا جواب: اہل علم محدثین کا اس روایت کے جھوٹ ہونے پر اتفاق ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر وہ انسان جسے علم حدیث کی معمولی سی بھی معرفت ہو‘ وہ جانتا ہے کہ یہ روایت محض جھوٹ ہے ؛ اہل علم محدثین میں سے کسی ایک نے بھی اپنی کسی قابل اعتماد سے روایت نہیں کیا ۔ اور نہ ہی صحاح ستہ ؛ سنن ؛اور قابل اعتماد مسانید میں اس کا کوئی وجود ہے۔
٭ تیسرا جواب : [اس کی اسناد میں متہم بالکذب راوی پائے جاتے ہیں ] ۔بلکہ علماء حدیث اس سے بڑھ کر اسے موضوع قرار دیتے ہیں اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کو حرام سمجھتے ہیں ۔اس حکایت کا روایت کرنے والا بڑا جھوٹا انسان ہے۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ سے منزہ اور بری ہیں ۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی شخص سید المسلمین اور امام المتقین نہیں ہو سکتا؛ اس پر تمام مسلمانو ں کا اجماع ہے۔
’’اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے سردار ہوں گے ۔‘‘
تو اس کے جواب میں کہا جائے گاکہ : ’’مذکورہ روایت میں ایسے الفاظ موجود نہیں جو اس تأویل پر دلالت کرتے ہوں کہ علی رضی اللہ عنہ میرے بعد امام المسلمین ہوں گے۔بلکہ روایت اس تأویل کیخلاف ہے۔ اس لیے کہ خیر المسلمین و المتقین وقائدغرالمحجلین ‘‘ قرن اول کے مسلمان تھے ۔اس دور میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی
|