امامت علی رضی اللہ عنہ کی چالیسویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چالیسویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلَاہُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (التحریم:۴)
’’ پس یقیناً اس کا کار ساز اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک ایماندار ۔‘‘
مفسرین کا اجماع ہے کہ ’’ صالح المومنین‘‘سے حضرت علی رضی اللہ عنہ مراد ہیں ۔ ابو نعیم حضرت اسماء بنت عمیس سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت پڑھتے سنا:﴿ وَاِِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ فَاِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰہُ وَجِبْرِیلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾، آپ نے فرمایا ۔نیک ایماندار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ مراد ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس خصوصیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ افضل ہیں لہٰذا آپ ہی امام ہوں گے۔‘‘اس معنی میں اوربھی بہت ساری آیات وارد ہوئی ہیں ۔ ہم نے جو کچھ ذکر کیا ہے وہ اختصار کے پیش نظر ہے ۔[شیعہ کا بیان ختم ہوا]
جواب:پہلی بات:....اس کا جواب یہ ہے کہ اس ضمن میں اس اجماع کا دعویٰ افترا پر مبنی ہے کہ’’تمام مفسرین کا ایماندار[مؤمن] سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مراد ہونے پر اتفاق ہے ‘‘یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔نہ ہی اس تفسیر پر کوئی اجماع ہے اور نہ ہی کسی مفسر یا محدث نے ایسا کوئی اجماع نقل کیا ہے۔ہم شیعہ سے اس منقول کی صحیح سند کا مطالبہ کرتے ہیں ۔یہ اجماع کس نے نقل کیا ہے ؟
دوسری بات:....حقیقت یہ ہے کہ اس روایت پر اجماع تو کجا کتب تفسیر میں اس کے برعکس مذکور ہے، چنانچہ مجاہد اور دیگر علماء اس سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ مراد لیتے ہیں ۔مفسرین کی ایک جماعت نے ایسے ہی نقل کیا ہے۔ جیسے ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ۔[اس کے علاوہ بھی اس کی کئی ایک تفاسیر ہیں :
۱۔ اس سے مراد ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یہ مکحول نے ابو امامہ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔
۲۔ اس سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ سعیدبن جبیر اورمجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے۔
۳۔ اس سے مراد نیکو کار مؤمنین ہیں ۔ یہ ربیع بن انس رحمہ اللہ کا قول ہے ۔
۴۔ بعض علماء اس سے انبیاء مراد لیتے ہیں ۔یہ قتادہ ؛زیاد بن علاء اور سفیان رحمہم اللہ کا قول ہے۔
۵۔ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ مراد ہیں ۔یہ حکایت ماوردی رحمہ اللہ نے نقل کی ہے ‘ اور اس قول کے کہنے والے کا نام نہیں لیا ‘ شائد اس کا کہنے والا کوئی شیعہ ہوگا۔
تیسری بات:....اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت ثابت نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں یہ حدیث یقیناً جھوٹ ہے۔مصنف نے اس حدیث کے صحیح ہونے پر کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔صرف ابو نعیم کا روایت کرلینا حدیث کے صحیح ہونے پردلالت نہیں کرتا ۔
چوتھی بات:....مزید براں ’’وصالح المؤمنین‘‘ کے الفاظ عام ہیں ؛بخاری و مسلم میں ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|