Maktaba Wahhabi

158 - 764
’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا؟ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا جب حق اس کے پاس آجائے وہ اسے جھٹلائے۔‘‘ مجموعی طور پر وہ مغازی جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قتال کی نوبت پیش آئی ان کی تعداد نو ہے ۔اور تمام غزوات کی مجموعی تعداد ستائیس ہے۔ جب کہ سرایا کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کی تعدادستر(۷۰) تک پہنچتی ہے۔ اتنے غزوات اور سرایا میں مجموعی طور پر قتل کیے جانے والے کفار کی کل تعداد ایک ہزار سے کچھ کم و بیش بنتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا دسواں یا بیسواں حصہ کفار کو بھی قتل نہیں کیا۔جب کہ اکثر سرایا میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں جایا کرتے تھے۔ جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی فتوحات میں بھی آپ نے بہت کم ہی حصہ لیا ہے۔ نہ آپ نہ عثمان ؛ نہ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم ؛ ہاں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلتے تو آپ بھی ان کے ساتھ نکلا کرتے تھے۔ البتہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے مصر کی فتح میں حصہ لیا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے قادسیہ کی فتح میں حصہ لیا تھا؛ اور حضرت ابو عبیدہ نے شام کا علاقہ فتح کیا تھا۔ تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک شخص کے ساتھ کی گئی تھی ؛ جب کہ حقیقت حال یہ ہے ۔ تو پھر اہل ایمان سابقین اولین اور مہاجرین وانصار کے ذریعہ ملنے والی تائید کہاں گئی؟ اور وہ تائید کہاں گئی جن لوگوں نے ببول کے درخت کے نیچے آپ کے ہاتھوں پر بیعت رضوان کی تھی؟ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی۔ جب کہ احد کے موقع پر سات سو کے قریب تھے۔خندق کے موقع پر ہزار سے زیادہ تھے ؛ بیعت رضوان کے دن چودہ سو کے لگ بھگ تھے ۔ یہی صحابہ کرام تھے جنہوں نے خیبر فتح کیا۔فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار کے قریب صحابہ کرام تھے؛ غزوہ حنین میں بارہ ہزار تھے ؛ دس ہزار کا مدنی لشکر اور دوہزار آزاد کردہ اہل مکہ [طلقاء]۔جب کہ تبوک کے موقع پر یہ شمار ممکن نہ رہا ؛ کہا جاتا ہے کہ اس وقت تیس ہزار سے زیادہ صحابہ تھے۔ جب کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ان کو شمار کرنا ممکن نہ رہا ۔آپ کے زمانے میں ہی بہت سارے لوگ ایسے تھے جو ایمان لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے شرفیاب ہوئے ؛ اور ان کاشمار بھی صحابہ میں ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ان لوگوں کے ذریعہ یمن اور دوسری جگہوں میں آپ کی مدد فرمائی۔یہ تمام لوگ وہ اہل ایمان تھے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی تائید کی۔بلکہ قیامت تک جو بھی ایمان لائے گااور اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا ‘ وہ اس حکم میں داخل شمار ہوگا۔ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چوبیسویں دلیل: [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چوبیسویں دلیل یہ آیت قرآنی ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الأنفال:۶۴) ’’اے نبی! آپ کو اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو جو تیری پیروی کر رہے ہیں ۔‘‘
Flag Counter