Maktaba Wahhabi

159 - 764
ابو نعیم کا قول ہے کہ: یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی؛ یہ فضیلت صحابہ میں سے کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی لہٰذا وہی امام برحق ہوں گے۔‘‘ [شیعہ کا بیان ختم ہوا] جواب:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے : پہلی بات:....یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ دوسری بات :....بیشک یہ قول حجت نہیں ہے ۔ تیسری بات : ....یہ کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا بہتان ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے : ﴿حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الأنفال:۶۴) اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے کافی ہے ‘ اور ان اہل ایمان کے لیے بھی کافی ہے جو آپ پر ایمان لائے ہیں ۔وہ اکیلا اللہ ہی آپ کے لیے بھی کافی ہے اور آپ کے ماننے والے اہل ایمان کے لیے بھی کافی ہے ۔ عرب اپنے کلام میں ایسے ہی جملے استعمال کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر کہا جاتا ہے : فَحَسْبُکَ وَزَیداً درھمٌ ۔ آپ کے لیے اور زید کے لیے ایک درہم ہی کافی ہے ۔ اور جیسے شاعر کا قول ہے: فَحَسْبُکَ وَالضُّحَّاکَ سَیْفٌ مُّہَنَّدٌ ’’تمہارے اورضحاک کے لیے صرف شمشیر برآں کافی ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’حَسْبُ‘‘ مصدر ہے۔مضاف ہونے کی صورت میں مستحسن اور زیادہ فصیح یہ ہے کہ اعادہ جار کے ساتھ اس پر عطف ڈالا جائے ۔ اعادہ جار کے بغیر اگرچہ صحیح قول کے مطابق جائز ہے؛ مگر شاذونادر ہی اس پر عطف ڈالا جاتا ہے۔ اعادہ جار افصح و احسن ہے۔ اس طرح معنی پر عطف ہوتا ہے۔ اور مضاف منصوب واقع ہوتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے: ’’حسبک والضحاک۔‘‘یعنی آپ کے لیے اور ضحاک کے لیے کافی ہے۔ مصدر فعل والا عمل کرتا ہے۔ لیکن جب اسے مضاف کردیا جائے تو اس کا غیر مضاف الیہ پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اسے فاعل کی طرف مضاف کیا جائے تو مفعول کو نصب دیتا ہے۔اور اگر اسے مفعول کی طرف مضاف کیا جائے تو فاعل کو رفع دیتا ہے۔ مثلاً آپ یوں کہیں : ((أعجبنِی دقُ القصارِ الثوبَ)) یہ بھی اس کلام کی ایک توجیہ ہے۔ اورآپ یوں کہیں : ((: أعجبنِی دقُ الثوبِ القصارُ۔)) نحویوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے کہ اس کے اعمال کا نکرہ ہونا اس کے مضاف الیہ ہونے سے زیادہ بہتر اور اچھا ہے۔ اس لیے کہ اضافت کی وجہ سے اس کی مشابہت اسماء کے ساتھ زیادہ قوی ہوجاتی ہے۔ اور حق اور سچ بات یہ ہے کہ مصدر کا کسی ایک کی طرف مضاف ہونا ؛ اور دوسرے پر اس کا عمل صرف اس کے نکرہ ہونے اس نکرہ پر عمل سے زیادہ بہتر ہے۔ پس کسی کا یوں کہنا کہ: ((أعجبنِی دقُ القصارِ الثوبَ)) یہ اس سے بہتر ہے کہ پ یوں کہیں : ((: أعجبنِی دقُ الثوبِ القصارُ۔))
Flag Counter