Maktaba Wahhabi

620 - 764
٭٭٭ ٭ باقی رہی حدیث’’اَصْحَابِی کَالنُّجُوْمِ بأیہم اقتدیتم اہتدیتم‘‘ تو یہ حدیث ضعیف ہے۔ ائمہ حدیث نے اسے ضعیف کہاہے، اس لیے قابل احتجاج نہیں۔[1] امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ۔ اور نہ ہی قابل اعتماد کتب احادیث میں اسے صحت کے ساتھ نقل کیا گیاہے۔ نیز اس حدیث میں ’’ بعدي ‘‘ کے الفاظ بھی نہیں ہیں ۔ جب کہ اصل قوت تو اسی لفظ میں ہے۔ نیز یہ کہ اس حدیث میں صحابہ کرام کی اقتداء کا حکم نہیں ہے[بلکہ ترغیب ہے] جب کہ مذکورہ بالا حدیث میں اقتداء کا حکم وارد ہوا ہے۔ فصل:....[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سلسلہ اعتراضات ] [اور ان کے جوابات] رافضی مصنف کہتا ہے : تیسری بات :جو آیات قرآنیہ آپ کے فضائل میں وارد ہوئی ہیں ؛ جیسے: ٭اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾ [ اللیل ۱۷] ٭اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِِلٰی قَوْمٍ اُوْلِی بَاْسٍ شَدِیْدٍ ﴾ [الفتح ۱۶] یہاں پر داعی سے مراد ابوبکر ہیں ۔آپ بدر کے موقع پر چھپر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرہ دار تھے ۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا مال خرچ کیا اور ان کی موجود گی میں نمازیں پڑھائیں ۔ ٭ جواب میں ہم کہتے ہیں :’’ غار کے واقعہ میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔ ممکن ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے رفیق سفر بنایا ہو کہ مبادا وہ آپ کے معاملہ کو ظاہر کردے۔ ٭ مزیدبرآں یہ کہ آیت اس کے نقیض پر دلالت کرتی ہے: اس لیے کہ : ’’ لَا تَحْزَنْ‘‘ کے الفاظ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بے صبری اور اللہ تعالیٰ پرعدم یقین ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مساوات پرعدم رضامندی؛ اللہ تعالیٰ کی قضاء وقدر پر عدم ایمان کو ظاہر کر رہے ہیں ۔‘‘اس لیے کہ اگر یہ حزن وملال اطاعت گزاری میں تھا تو پھر اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منع کرنا محال ٹھہرا۔ اور اگریہ حزن و ملال نافرمانی میں تھا تو پھر جس چیزکی فضیلت ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہ رذیلت ٹھہری ۔ ٭ مزید برآں اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ[﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْمُؤْمِنِیْنَ﴾میں ‘‘ ’’پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مؤمنین پر اپنا سکون نازل فرمایا ‘‘]۔ میں سکینہ نازل کرنے کا ذکر فرمایا تو اس میں
Flag Counter