Maktaba Wahhabi

443 - 764
فصل:....[حقیقت شجاعت] اس چیز کا جانناضروری ہے کہ دین میں شجاعت کی فضیلت و اہمیت جہاد فے سبیل اللہ کی وجہ سے ہے۔ وگرنہ وہ بہادری وشجاعت جس سے جہاد فے سبیل اللہ کا کام نہ لیا جائے ؛ وہ یاتو خود انسان پر وبال ہے جب وہ اس بہادری سے شیطان کی اطاعت میں مدد لے گا۔ اور یا پھر اگر اسے اللہ تعالیٰ کی قربت و اطاعت کے کاموں میں نہ صرف کرے تو اس کے لیے غیر نفع بخش ہے۔ پس حضرت علی ‘ حضرت زبیر، حضرت خالد اور ابو دجانہ‘ اور براء بن مالک ( رضی اللہ عنہم ) بڑے بہادر مجاہد صحابہ کرام میں سے تھے۔اور یہ بہادری ان کے فضائل میں شمار ہونے لگی۔اس لیے کہ انہوں نے اس بہادری سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد میں مدد لی ؛ اور اس وجہ سے وہ اس حمد وثنا کے مستحق ٹھہرے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مجاہدین کی ثنا بیان کی ہے۔ جب یہ بات معلوم ہوگئی تویہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ جہاد کی ایک قسم ہاتھ سے قتال کرنا ہے ۔ اور دوسری قسم دلیل و بیان اور دعوت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ نَذِیرًا Oفَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا﴾ ’’اوراگر ہم چاہتے تو ضرور ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے۔پس تو کافروں کا کہنا مت مان اور اس کے ساتھ ان سے جہاد کر، بہت بڑا جہاد۔‘‘[الفرقان ۵۱۔ ۵۲] اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کفار کو قرآن سنا کر ان کے ساتھ بڑا جہاد کیا جائے۔ یہ مکی سورت کی آیات ہیں جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں ۔اس وقت تک ابھی قتال کرنے کا حکم نہیں ملاتھا۔اور نہ ہی اس کی اجازت دی گئی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ یہ جہاد علم و قلب ‘اوربیان و دعوت کے ساتھ تھا قتال نہیں تھا۔اس لیے کہ قتال میں رائے اور تدبیر کے ساتھ شجاعت ِ قلب اور زور بازو کی ضرورت ہوتی ہے۔قوت بدن کی نسب سے شجاعت قلب اور رائے وتدبیر کی عام مجاہد سے بڑھ کر قائد اور سالار میں بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ سو حضرت ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما جسمانی قتال کے علاوہ بھی جہاد کی جملہ اقسام میں دوسرے صحابہ کرام پر مقدم تھے۔[ بلاشبہ اس جہاد میں حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما نے بھی شرکت کی تھی، اگرچہ وہ اس ضمن میں ان مجاہدین تک نہ پہنچ سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ مرتبہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو اطراف ملک میں امیر لشکر بنا کر بھیجا تھا۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خیبر کے بعض قلعے یقیناً فتح کیے تھے] امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’شیعہ کا قول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جہاد و قتال ‘کفار پر ضرب و کرب میں دیگر صحابہ پر فائق تھے اورجہاد افضل الاعمال ہے۔‘‘یہ غلط بات ہے۔ اس لیے کہ جہاد کی تین قسمیں ہیں :
Flag Counter