Maktaba Wahhabi

444 - 764
۱۔ جہاد کی پہلی قسم دین اسلام کی طرف زبان کے ساتھ دعوت دیناہے[ یہ جہاد کی سب سے اعلیٰ قسم ہے]۔ ۲۔ جہاد کی دوسری قسم یہ ہے کہ لڑائی کے وقت رائے و تدبیر سے کام لیا جائے۔ ۳۔ تیسری قسم کا جہاد جہاد بالید[ہاتھ کا جہاد] ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاد کی قسم اوّل[ یعنی دعوت الی اللہ]میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا ہم پلہ نہیں ۔ اکابر صحابہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دست حق پرست پر بیعت اسلام کی تھی۔یہ افضل اعمال میں سے ہے۔اس میدان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اتنا بڑا کردار نہیں ۔ باقی رہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو جس دن آپ اسلام لائے اس دن اور اس وقت سے اسلام زور پکڑ گیا؛ اور اعلانیہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہونے لگی۔یہ سب سے بڑا جہاد ہے۔ [حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے:’’ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے ہم معزز ہو گئے۔‘‘][1] خلاصہ کلام! حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما جہادکی ان دونوں اقسام میں عدیم النظیر تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس میں بڑا حصہ نہیں تھا۔ دوسری قسم کا جہاد جس میں رائے و مشورہ سے کام لیا جاتاہے حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مختص ہے۔ تیسری قسم کے جہاد میں سرور کائنات نے بہت کم حصہ لیا، مگر اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ آپ بزدل تھے۔ہم دیکھتے ہیں کہ جہاد کی اس قسم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ منفرد نہ تھے۔ بلکہ دیگر صحابہ اس میں برابر آپ کے سہیم و شریک تھے۔ مثلاً یہ صحابہ کرام، حضرت طلحہ، زبیر، سعد، حمزہ، عبیدہ بن حارث، مصعب بن عمیر،سعد بن معاذ اور سماک بن ابی دجانہ ( رضی اللہ عنہم ) بڑے مجاہد تھے۔ بلاشبہ اس جہاد میں حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما نے بھی شرکت کی تھی، اگرچہ وہ اس ضمن میں ان مجاہدین تک نہ پہنچ سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ مرتبہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو اطراف ملک میں امیر لشکر بنا کر بھیجا تھا۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خیبر کے بعض قلعے یقیناً فتح کیے تھے۔ شیعہ کا قول کہ شمشیر علی رضی اللہ عنہ سے ارکان اسلام مضبوط ہوئے: [اشکال ]:شیعہ مصنف کا قول ہے کہ:’’ شمشیر علی رضی اللہ عنہ سے قواعدِ اسلام و ارکان ایمان مضبوط ہوئے۔‘‘ [جواب]: صاف جھوٹ ہے اور اسلامی غزوات سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص اس کے کذب کا گواہ ہے۔ البتہ یہ کہنا صحیح ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات بھی ان اسباب و وسائل میں سے ایک تھی جن کے باعث دین اسلام نے تقویت پائی۔ جس طرح بدر میں بہت سی تلواریں آپ کی تلوار کے علاوہ اور بھی تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ غزوات جن میں قتال کی نوبت آئی تھی کل نو تھے۔ سرور کائنات کی وفات کے بعد فارس و روم کی خطرناک لڑائیوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مطلقاً حصہ نہیں لیا تھا۔ عہد رسالت کی لڑائیوں میں جو غلبہ حاصل کیا تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کامیابی نہ تھی بلکہ وہ
Flag Counter