Maktaba Wahhabi

445 - 764
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کارہین منت تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جمل و صفین اور نہروان کی لڑائیوں میں جو غلبہ حاصل کیا تھا اس کی وجہ ان کے لشکر کی کثرت تعداد تھی۔ اس کے باوصف آپ نے اہل شام کے خلاف کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کی تھی بلکہ فریقین برابر تھے اور کسی کا پلہ بھی دوسرے سے بھاری نہ تھا۔ [اشکال ]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ سے کبھی فرار اختیار نہیں کیا تھا۔‘‘ [جواب]:ہم کہتے ہیں یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت نہیں ، بلکہ حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ بھی اس وصف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے برابر شریک ہیں ، اور اگر اس قسم کی کوئی معمولی چیز وقوع میں آئی بھی ہے تو وہ پوشیدہ ہے اور نقل ہو کر ہم تک نہیں پہنچی۔ اس بات کا احتمال ہے کہ احد و حنین میں ایسی لغزش حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی سرزد ہوئی ہو مگر ہم اس سے آگاہ نہ ہو سکے۔ مسلمانوں کو دوبار پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ ایک بار احد کے موقعہ پر اوردوسری بار حنین میں ۔ اور یہ بات منقول نہیں ہے کہ ان مذکورہ بالا صحابہ کرام میں سے کوئی ایک پسپا ہوا ہو۔بلکہ سیرت اور مغازی کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما غزوہ احد و حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ فرارہونے والوں کے ساتھ فرار نہیں ہوئے تھے۔ جس نے یہ دعوی کیا ہے کہ یہ حضرات حنین کے موقعہ پر فرار ہوگئے تھے ‘تواس کاجھوٹ صاف ظاہر اور ہر ایک کومعلوم ہے۔ احد کے موقعہ پر پسپا ہونے والوں میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شامل تھے ؛ [اس لغزش کو] اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ جو کچھ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے متعلق نقل کیا جاتا ہے کہ آپ حنین کے موقعہ پر جھنڈا لیکر فرار ہوگئے تھے؛ یہ محض جھوٹ ہے جو ان لوگوں نے گھڑلیا ہے جنہیں افتراء پردازی کی عادت اور لت پڑی ہوئی ہے۔ شیعہ مصنف کا دعوی کہ : ’’ آپ نے اپنی تلوار سے کبھی کسی قریبی رشتہ دار کو قتل نہیں کیا ۔‘‘ [جواب]: اس کے سچ یا جھوٹ ہونے کے ثبوت معلوم نہیں ہوسکے۔اور اس مسئلہ میں ہمارے پاس کوئی قابل اعتماد روایت بھی موجود نہیں ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی انسان حضرت خالد بن ولید ‘حضرت زبیر ‘ براء بن مالک ‘ابو دجانہ اور ابو طلحہ وغیرہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ایسا دعوی کرے کہ انہون نے کبھی اپنے کسی خونی رشتہ دارکو قتل نہیں کیا۔ یہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق دعوی جیسا دعوی ہے۔بلکہ یہ مثال حضرت خالد اور براء بن مالک رضی اللہ عنہما پر زیادہ صادق آتی ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا تھا: ’’آپ مشرکین پر اللہ کی تلواروں میں سے ایک لٹکتی ہوئی تلوار ہیں ۔‘‘[سبق تخریجہ] پس اگر یہ کہا جائے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تلوار بنایا ہووہ کبھی اپنے کسی قریبی خونی رشتہ دار کوقتل نہیں کرے گا تو یہ بات سچائی کے زیادہ قریب ہوگی۔ حالانکہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے متعلق معلوم ہے کہ آپ نے جنگوں میں کس کثرت سے لوگوں کو قتل کیا ۔اور آپ ہمیشہ کامیاب ہی ہوتے رہے ۔ [ اشکال ]: شیعہ کا یہ قول کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشکلات کا ازالہ کیا۔‘‘
Flag Counter