[جواب]: دعویٰ بلا دلیل ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کی ایک تکلیف کو بھی دور نہیں کیا تھا۔ البتہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس وقت آپ کی امداد کی تھی جب مشرکین نے مکہ میں آپ کو پیٹنا اور قتل کرنا چاہا تھا قرآن کریم میں اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا:﴿اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ﴾ (غافر:۲۸)
’’کیا تم اس لیے ایک شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اﷲ ہے۔‘‘
مشرکین نے اس جرم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پیٹا تھا۔[1]
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کسی ایسی خدمت کی انجام دہی کا علم نہیں ہوسکا۔
یہ بات غلط ہے کہ مشرکین نے احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تلوار کے ساتھ چھڑایا تھا۔اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی یہ واقعہ نقل نہیں کیا ‘اور نہ ہی اس کی کوئی حقیقت ہے۔ غالباً شیعہ مصنف کاماخذ قصہ کہانی کے طرز پر لکھی ہوئی مغازی و سیرت کی کتابیں ہیں جو افسانہ گو قسم کے لوگوں نے تصنیف کی ہیں ۔ مثلاً البکری کی ’’تنقلات الانوار‘‘ نیز سیرۃ البطال وعنترہ و احمد الدنف وغیرہ یا وہ کتابیں جو سکول کے طالب علم پڑھائی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کرایہ پر لے کر پڑھتے ہیں اور ان بے ہودہ کہانیوں کو پڑھ کر وہ رات بھر سو نہیں سکتے۔
کذابین نے مغازی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی کہانیاں گھڑلی ہیں جو اسی جنس سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان کی تصدیق وہ جاہل لوگ کرتے ہیں جنہیں سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح روایات کا علم نہ ہو۔ جے کہ اہل علم جانتے ہیں کہ ایسی سب روایات کورا جھوٹ ہیں ۔
٭ شیعہ مصنف نے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے رات گزارنے کا ذکر کیا ہے ‘ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یہاں پر اصل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر خوف والی کوئی بات نہیں تھی۔
اہل ایمان کی جانب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کا جو سب سے مشہور واقعہ ومعرکہ ہے وہ احد کے دن کا ہے۔جس دن مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تھے۔تو دشمن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے میں بھر پور کوشش کرنے لگا۔
امیہ بن خلف آپ کو قتل کرنے کی کوشش میں آگے بڑھنے لگا۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے قتل کیا۔ اس موقعہ پرمشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی کردیا؛ آپ کے سر پر خود تھا جس پر وار کیا گیا ؛ آپ کے سامنے کے دو اوپر والے دوانت ٹوٹ گئے ۔اس وقت جو صحابہ کرام آپ کے ارد گرد باقی رہ گئے تھے وہ بھر پور دفاع کرنے لگے۔جیسے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تیر چلاتے جارہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: ’’ میرے ماں باپ تجھ پہ قربان ! خوب تیر چلاؤ ‘‘[2] [البخاری ۴؍۳۹]
|