ہے اور کبھی اس کی خصوصیات کی نفی بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔
شیعہ کے ساتھ اکثر کلام نقل پر مبنی ہوتا ہے۔ جس کو واقعات کی خبر ہو؛اوران سچی روایات کا بھی علم ہو جن سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے ؛ تو اسے یقینی طور پر اس کی نقیض کا علم بھی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث نبویہ کا علم رکھنے والوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کہ شیخین کی فضیلت اور ان کی امامت کے درست ہونے کے عقیدہ کو واجب نہ کہتا ہو اور روافض کے دعووں کو جھوٹ کہہ کر رد نہ کرتا ہو۔
پھر جوکوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے احوال کا خوب علم رکھتا ہو؛ وہ زیدیہ اور دوسرے ان مذاہب کے دعووں کے باطل ہونے کو اچھی طرح جانتا ہے جو نص خفی کا دعوی کرتے ہیں ۔ اوریہ کہ حضرت علی خلفائے ثلاثہ سے افضل تھے۔ یا پھر جوکوئی ان کی فضیلت میں توقف کرتا ہو۔ بیشک یہ لوگ اپنے کمزور علم اور اور جہالت کی وجہ سے جہل مرکب یا جہل بسیط کا شکار ہیں ؛ ان کے پاس وہ علم نہیں ہے جو حدیث و آثار کے ماہرین کے پاس ہے۔
فصل:....وہ احادیث جن کا رافضی نے ذکر نہیں کیا
یہ ایسی احادیث ہیں جو کہ اس کی ذکر کردہ روایت سے زیادہ دلالت کرتی ہیں ۔
اور پھر یہ بات جان لینی چاہیے کہ ا ن کے علاوہ دیگر بھی کئی ایک احادیث ہیں جن کاذکر اس رافضی مصنف نے نہیں کیا۔ اگروہ احادیث صحیح ہوتیں تو اپنے مقصود پر دلالت کرتی تھیں ۔ کیونکہ ان میں سے بعض روایات میں مصنف کی ذکر کردہ روایت سے زیادہ واضح دلائل تھے مگر یہ تمام روایات جھوٹ پر مبنی ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ؛حضرت عثمان و علی اورحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے فضائل میں بھی جھوٹی احادیث روایت کی ہیں ۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں من گھڑت روایات زیادہ ہیں ۔ کیونکہ نواصب کی نسبت شیعہ زیادہ جرأت کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں ۔
ابو الفرج ابن جوزی فرماتے ہیں : حضرت علی کے فضائل کثرت کے ساتھ ہیں بس اتنی بات ہے کہ روافض نے ان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی طرف سے ایسی روایات گھڑ لیں جن سے آپ کے مقام و مرتبہ میں کمی ہی آئی ہے کچھ اضافہ نہیں ہوا ۔ اورایسے خاموش طریقے سے ان میں حواشی داخل کیے جنہوں نے اسے کو باطل کی طرف دھکیل دیا۔
یہ جان لینا ضروری ہے کہ روافض کی تین اقسام ہیں : ایک قسم : جنہوں نے کچھ احادیث سن لیں اور پھر اپنی طرف سے احادیث گھڑ کر ان میں کمی اور زیادتی کردی۔
دوسری قسم وہ ہے جنہوں نے کوئی حدیث نہیں سنی آپ انہیں دیکھیں گے کہ امام جعفر صادق پر جھوٹ بولتے رہتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں :امام جعفر نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا۔ اور تیسری قسم جہلا عوام الناس ہیں وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کی دل میں آتی ہیں خواہ وہ عقلا ممکن ہو یا نا ممکن ہو۔
|