اعتراف کریں ۔اس لیے کہ رائے غلط بھی ہوتی ہے۔جیسا کہ حدیبیہ کے دن خود ان کی رائے کی غلطی سے ظاہر ہوگیا۔او رایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی تعمیل حکم نہیں کی۔اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب حکم دیا گیا کہ : وہ اپنے سر منڈوا دیں اور قربانیاں ذبح کردیں ؛ توانہوں نے تعمیل حکم نہیں کی۔یہاں تک کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے خود اپنے بال منڈوا دیے ؛ اور پھر انہوں نے اپنی اس حرکت پر توبہ بھی کی ؛ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے والا اور ان کے گناہوں کومعاف کرنے والا ہے۔
یہ بہت ہی عظیم قصہ ہے۔جواس مقام تک پہنچا ہوا ہے کہ عام لوگ اس کے تحمل کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ وگرنہ یہی لوگ سب سے بہترین مخلوق تھے؛ اور لوگوں میں سب سے افضل لوگ تھے۔علم و ایمان میں سب سے پختہ اور بڑھے ہوئے تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ببول کے درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رضامندی کے سر ٹیفکیٹ سے نوازاتھا۔ اور ان کے ثنائے خیر کی تھی ۔ یہی لوگ مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین تھے۔
[فضیلت کا اعتبار:]
فضیلت میں اعتبار کمال انتہاء کے لحاظ سے ہوتا ہے نقص ِ ابتداء کے لحاظ سے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمارے سامنے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کی توبہ اور ان کے احسن انجام ؛اور خاتمہ بالخیرکے واقعات بیان کیے ہیں ۔جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی کرامات کا احسان کیا تھا؛اور انہیں بلند مقام و درجات سے نوازا تھا۔ حالانکہ ان کے مابین کئی واقعات بھی پیش آئے تھے۔ ان واقعات کی وجہ سے ان لوگوں سے بغض رکھنا ہرگز جائز نہیں ۔ اس لیے کہ اعتبار تو کمال ِ انتہاء کا ہے نقصِ ابتداء کا نہیں۔
یہی حال سابقین اولین کا ہے۔ جو کوئی ان کی ابتدائی زندگیوں کے اعتبار سے بغض رکھے؛ حالانکہ اعتبار تو انتہاء میں کمال کے لحاظ سے ہے ؛ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا؛ تو ایسا انسان جاہل ہے۔ لیکن یہاں مطلوب یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام لوگوں سے زیادہ اکمل و افضل اور خیروبھلائی کے کاموں میں سبقت لے جانے والے تھے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی دوسرا انسان آپ کا ہم پلہ اور مثیل نہیں تھا۔
یہ بات اتنی واضح ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سے جاہل کے علاوہ کوئی دوسرا انسان شک نہیں کرسکتا۔یا پھر کوئی ایسا خواہشات پرست انسا ن ہو جس کو اس کی خواہشات نے قبول حق سے روک رکھا ہو۔ وگرنہ جس انسان کے پاس علم اور عدل ہو ؛ وہ کسی طرح بھی اس معاملہ میں شک کا شکار نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ اس مسئلہ میں اہل علم و ایمان شک نہیں کرسکتے۔ جیسا کہ اس دور کے تمام لوگ باقی صحابہ پرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اورتقدیم پر متفق تھے؛ اور بعد میں آنے والے اہل اسلام اور بہترین لوگ صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کا بھی اس پر اتفاق تھا۔ یہی امام مالک او ران کے اصحاب‘ امام شافعی او ران کے اصحاب‘ امام احمد او ران کے اصحاب‘ امام داؤد او ران کے اصحاب‘ امام ثوری او ران
|