آپ کا مقام و مرتبہ اور کہاں دوسرے لوگوں کا مقام و مرتبہ ؟
ایک آپ سے مناظرہ کررہا ہے تاکہ آپ اپنافیصلہ واپس لے لیں ۔ دوسرے کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ کا نام مٹاد ے‘ مگر وہ ایسا نہیں کررہا ۔دوسرا کہہ رہا ہے : اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا فیصلہ واپس کروا سکتا تو ضرور ایسا کروا دیتا۔ آپ لوگوں کوقربانیاں کرنے کا حکم دے رہے ہیں تو لوگ توقف میں پڑے ہوئے ہیں ۔
اس میں بھی کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ جن لوگوں نے ایسے کیا اس کے پیچھے بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور کفار سے بغض و نفرت کا عنصر شامل تھا۔اور انہیں یہ بات محبوب تھی کہ ایمان کفر پر غالب اور سر بلند رہے۔اور یہ کہ اہل ایمان پر اہل کفر کی وجہ سے کوئی بزدلی ‘ کمزوری یا رسوائی داخل نہ ہو۔ اور ان کا نظریہ یہ تھا کہ ان سے لڑ پڑیں تاکہ مسلمانوں کواس دبی ہوئی صلح کی وجہ سے بزدلی اور دب جانے کی عار لاحق نہ ہو۔
یہ بات تو معلوم شدہ ہے کہ نص کو رائے پر تقدیم حاصل ہوتی ہے؛ اور شریعت کوخواہشات نفس پر۔ وہ بنیادی اصول جس میں انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لانے والے اور ان کا انکار کرنے والے متفرق ہوگئے ؛ وہ اصول یہی تھا کہ نصوص کو آراء پر شریعت کو أھواء پر تقدیم حاصل ہے۔ اور شر کی اصل بنیاد رائے کو نص ؛اورخواہشات کو شریعت پر مقدم کرنا ہے۔ پس جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے روشن کردیا ہو ‘ تو اسے نصوص و شریعت میں موجود خیر و بھلائی نظر آنے لگ جاتی ہے۔اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی نص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحکم شریعت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔ اور ان کے ساتھ رائے یا خواہش نفس کی وجہ سے ٹکرایا نہیں جاسکتا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاکہ: ’’ میں اللہ کا رسول ہوں ‘ اور ہرگزاس کی نافرمانی کرنے والا نہیں ۔ وہ میرا ناصر و مدد گار ہے ۔‘‘ تو آپ نے بیان کردیا کہ:’’ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ اور آپ وہی کام کریں گے جس کا حکم رسولوں کودیا جاتا ہے۔ وہ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کرتے۔ اور آپ نے یہ بھی خبر دی کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کرتے ہیں ؛ نافرمانی نہیں کرتے؛ جیسا کہ خواہش پرست اور اپنی رائے پر چلنے والوں کا حال ہوتا ہے ۔ اور آپ نے یہ بھی خبر دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر اور مدد گارہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی مدد پر پورا یقین تھا۔ پس اس موقع پر جو کچھ ہوا وہ ہر گز آپ کے حق میں ضرر رساں نہیں تھا۔ اس لیے کہ یہ دین کی سر بلندی کی مصلحت کومتضمن تھا ؛ جیسا کہ بعد میں یہ ظاہر ہوا۔حقیقت میں یہ فتح مبین تھی۔اگرچہ اس میں موجود حسن و خوبی کو بہت سارے لوگ سمجھ نہیں سکے تھے۔اور بلکہ اسے بزدلی ؛ عجز اورذلالت اور دب جانے سے تعبیر کرتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے اس موقع پر اعتراضات کیے تھے؛ بعد میں انہوں نے توبہ کی؛ رضی اللہ عنہم ۔ جیسا کہ حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رجوع کرنے کا واقعہ آتاہے۔اور ایسے ہی حدیث میں حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے اپنی خطاء کے معترف ہونے کا بھی ذکرہے۔ اس لیے کہ آپ نے آخر میں یہ کہا تھا: ’’ اللہ و رسولہ اعلم ۔‘‘
پھر ان کی رائے کو بعد میں آنے والوں کے لیے درس عبرت قرار دیا۔اور لوگوں کوحکم دیا کہ وہ اپنی رائے کی غلطی کا
|