شریک کرلیا ہے ۔‘‘ اور اس پر دو آدمی گواہ بھی پیش کیے ۔ ان میں سے ایک رحال بن عنفوۃ تھا۔اس نے اس بات کی گواہی دی۔ یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین آدمیوں سے جن میں ایک ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور دوسرا یہی رحال بن عنفوۃ تھا ؛ فرمایا تھا: ’’ تم میں سے ایک آدمی داڑھیں جہنم میں فلاں اور فلاں سے بڑی ہیں ۔‘‘[1]
ان میں سے ایک کو اللہ کی راہ میں شہادت نصیب ہوگئی۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسی طرح لرزاں و ترساں رہے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کیا تو اس رحال نے اس کے نبی ہونے کی گواہی دی اوراس کی اتباع اختیار کرلی۔اب اس میں کوئی شک باقی نہ رہا ہے فرمان نبوت سے مراد یہی رحال بن عنفوہ تھا۔
مسیلمہ کا مؤذن جب اذان دیتا توکہتا :
’’ أشہد أن محمدًا و مسیلمہ رسولا اللّٰہ۔‘‘
’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اور مسیلمہ دونوں اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘
بنو حنیفہ کا ارتداد اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ :
امت کے اولین و آخرین کے نزدیک بنو حنیفہ کا قتل اور ان کا قیدی بنانا حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا عظیم کارنامہ ہے۔اس لیے کہ لوگوں میں سب سے بڑے مرتد بنی حنیفہ تھے۔ آپ نے عدم ادائیگی زکوٰۃ کی بنا پر ان کو قتل نہیں کیا تھا، بلکہ اس لیے قتل کیا تھا کہ وہ مسیلمہ کذاب پر ایمان لائے تھے۔ ان کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن حنفیہ کی ماں بنو حنیفہ ہی میں سے آپ کی باندی تھی۔اس سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جوکہ مرتد خواتین کوقیدی بنانے کو جائز کہتے ہیں ؛ جب کہ مرتدین اہل حرب میں سے ہوں ۔اگریہ لوگ مسلمان اور معصوم الدم تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے کیسے یہ جائز ہوگیا کہ ان کی عورتوں کو قیدی بھی بنائیں اور پھر ان سے ہم بستری بھی کریں ۔
جن قبائل کے خلاف حضرت صدیق عدم ادائیگی زکوٰۃ کی بنا پر نبرد آزما ہوئے تھے وہ بنو حنیفہ کے علاوہ دیگر قبائل تھے۔ انھوں نے بالکل ترک زکوٰۃ کو مباح قرار دیا تھا؛ اور کلیۃً زکواۃ کی ادائیگی کاانکار کردیا تھا؛ اس لیے ان کے خلاف اس بات پر جنگ آزمائی کی نوبت آئی۔جنگ کی وجہ یہ نہیں تھی کہ زکواۃ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تک پہنچائی جائے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اتباع کارجیسے حضرت امام ابوحنیفہ و احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ رحمہم اللہ کا خیال ہے
|