۳....(( إنا أعطیناک الجماہر فصل لربک و ہاجر و لا تطع کل ساحر وکافر۔))
’’بیشک ہم نے آپ کوجماہر عطا کیے ہیں ۔ آپ اپنے رب کی نمازپڑھو اورہجرت کرو؛ کسی بھی جادو گر اورکافر کی بات مت مانو۔‘‘
۴....((والطاحنات طحناً فالعاجنات عجناً فالخابزات خبزاً إھالۃ و سمناً إن الأرض بیننا و بین قریش نصفین ؛ ولکن قریشاً قوم لا یعدلون۔))
’’ اور قسم ہے چکی پیسنے والیوں کی جب وہ چکی پیسیں ؛ اور آٹا گوندھنے والیوں کی جب وہ آٹا گوندھیں ۔او رروٹیاں پکانے والوں کی جب وہ روٹیاں پکائیں ؛ اورپراس پر گھی اور سالن ڈالیں ۔بیشک زمین ہمارے اور قریش کے مابین آدھی آدھی ہے ؛ مگر قریش کے لوگ انصاف نہیں کرتے۔‘‘
مسیلمہ نے جو قرآن مرتب کیا تھا، وہ حد درجہ مضحکہ انگیز اور اس کی حماقت وسفاہت کا آئینہ دار تھا۔جب مسیلمہ کے قتل کے بعد بنو حنیفہ کا وفد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوا توآپ نے ان سے مسیلمہ کا کچھ کلام سنانے کو کہا۔جس پر انہوں نے یہ کلام سنایا توآپ نے فرمایا:
’’تمہارے لیے ہلاکت ہو ! مسیلمہ تمہاری عقلوں کو کہاں لیے جا رہا ہے، یہ کلام اﷲ کا نازل کردہ نہیں ۔‘‘
اس مسیلمہ کذاب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی زندگی میں یہ خط بھی لکھا تھا:
’’ مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کی طرف ؛ اما بعد !
’’ بیشک میں اس امر [نبوت و رسالت ] میں آپ کا شریک ہوچکا ہوں ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیتے ہوئے یہ خط تحریر فرمایا :
’’ محمد رسول اللہ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کی جانب ۔‘‘
جب مسیلمہ کذاب کا نمائندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: کیا تم بھی یہ گواہی دیتے ہو کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ۔
تو آپ نے فرمایا: اگر ایسا نہ ہوتا کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تمہاری گردن مار دیتا۔‘‘
پھر ان دوسفیروں میں سے ایک کوفہ میں ملا ‘ جسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی بنیاد پر قتل کروادیا۔[1]
مسیلمہ کذاب اس سے پہلے بنو حنیفہ کے وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام کا اظہار کر چکا تھا۔ پھر جب واپس اپنے علاقہ میں چلا گیا تو اپنی قوم کے لوگوں سے کہنے لگا: ’’مجھے محمد نے اپنے ساتھ نبوت میں
|