Maktaba Wahhabi

309 - 764
ہیں ؛ جب کہ یہ ائمہ جن کے بارے میں شیعہ کا دعوی ہے کہ یہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت اور شہروں پر اس کا لطف و کرم ہیں ۔ ان کے بغیر کوئی ہدایت نہیں مل سکتی۔اور ان کی اطاعت کے بغیر کوئی نجات نہیں ؛ اوران کی اتباع کے بغیر کوئی سعادت نہیں ۔ ان کا آخری امام ساڑھے چار سوسال [اب گیارہ سو سال ]سے غائب ہے؛ کوئی بھی اپنے دینی یا دنیاوی امور میں اس سے کوئی فائدہ نہ حاصل کرسکا۔ اور اس کے لیے دین کا اتنا اظہار کرنا بھی ممکن نہیں ہے جتنایہود و نصاری کے لیے ممکن ہے۔ [اس لیے ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ وہ لطف و مصلحت کیا ہوئی جو شیعہ کے نزدیک اﷲ پر واجب ہے؟] یہی وجہ ہے کہ اہل علم ہمیشہ سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ : رافضیت زنادقہ اور ملحدین کی ایجاد ہے جو چاہتے ہیں کہ دین اسلام کو خراب کریں ‘ [مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے ]: ﴿وَ یَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَ لَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ﴾ [توبہ۳۲] ’’اور اللہ تعالیٰ انکار کرتے ہیں مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر ناخوش رہیں ۔‘‘ [ائمہ سے متعلق شیعہ کے بلند بانگ دعوے]: اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی تمام باتوں کا انجام کارجمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کی تکفیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باطنی مذہب کی دعوت ان اصولوں پر قائم ہے ۔ [شیعہ اس زعم فاسد میں مبتلا ہیں کہ ائمہ اﷲ کے بندوں پر اس کی حجت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ہدایت انہی کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہے اور ان کی اطاعت کے بغیر نجات ممکن نہیں ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ آخری امام ہنوز پردۂ غیب میں ہے اور کسی نے بھی ان سے دینی یا دنیوی فائدہ نہیں اٹھایا، اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ عقیدہ رفض زنادقہ کا اختراع کردہ ہے، یہی وجہ ہے کہ فرقہ باطنیہ والے ]سب سے پہلے اپنے دام میں پھنسنے والوں کو شیعیت کی دعوت دیتے ہیں ۔جب کوئی شخص اس کا قائل ہو جاتا ہے تو پھر وہ یوں کہنے لگتے ہیں کہ علی دیگر خلفاء کی طرح تھے، چنانچہ وہ شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جرح و قدح کا نشانہ بنانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ جب اس میں پختہ ہو جاتا ہے تو پھر باطنیہ اسے رسول پر اعتراضات وارد کرنا سکھاتے ہیں یہاں تک کہ وہ منکر رسول ہو جاتا ہے پھر اسے باری تعالیٰ کی ہستی کا منکر بناتے ہیں خلاصہ یہ کہ تدریجاً وہ پوری شریعت کا منکر ہوجاتا ہے۔ ان کی کتاب کی یہی ترتیب ہے ۔ اس کتاب کانام ’’ البلاغ الاکبر ‘‘ ہے ‘اور اسے ’’الناموس الاعظم بھی کہتے ہیں ۔ اس کے مصنف نے یہ کتاب قرمطی کو بھیجی تھی جس نے بحرین سے خروج کیا تھا؛ اور پھر مکہ پر غلبہ پاکر وہاں حجاج کرام کا قتل عام کیا ‘ اور حجر اسود اکھاڑ کر لے گئے ؛ اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کیا ‘اور فرائض کو ساقط قراردیا۔ ان لوگوں کے عقائد و اخلاقیات علمائے کرام رحمہم اللہ میں بڑے معروف ہیں ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ بات کیسے منسوب کی جاسکتی ہے کہ آپ یہ فرمادیں کہ : ’’ جو کوئی علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہوئے مر جائے ؛ وہ یہودی مرے یا عیسائی ؛ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ جب کہ حال یہ ہے کہ تمام خوارج آپ کی تکفیر کرتے اور آپ سے بغض رکھتے ہیں ۔اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں یہودونصاری کی طرح نہیں سمجھتے تھے ؛بلکہ انہیں
Flag Counter