[رائے کی غلطی]:
مسلم کی ایک روایت میں ہے: [حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا]: اے لوگو! اپنی رائے کو غلط سمجھو؛ اللہ کی قسم! ابوجندل کے دن کا واقعہ میرے سامنے ہے اگر مجھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر سے لوٹا دینے کی طاقت ہوتی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوٹا دیتا۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں :’’ اللہ کی قسم ہم نے اپنی تلواریں کسی کام کے لیے اپنے کندھوں پر کبھی نہیں رکھیں مگر یہ کہ ان تلواروں نے ہمارے کام کو ہمارے لیے آسان بنا دیا البتہ یہ معاملہ ( آسان )نہیں ہوتا۔‘‘ [1]
اور ایک روایت میں آپ فرماتے ہیں :
’’[ (مگر اس جنگ صفین)کا عجیب حال ہے کہ] ہم ایک کام کو سنبھالتے ہیں تو دوسرا بگڑ جاتا ہے ہم حیران ہیں کہ اس کے انسداد کی کیا تدبیر کریں ۔‘‘[2]
یہ جملے آپ نے صفین کے موقع پر اس وقت ارشاد فرمائے جب حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما اور ان کے اصحاب کے مابین صلح کی وجہ سے خوارج کا ظہور ہوا۔
عمرہ حدیبیہ کے موقع کی یہ تمام ایسی روایات ہیں جن کے صحیح ہونے پر اہل علم محدثین کااتفاق ہے؛ اور ان سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ظاہر ہوتی ہے۔اس خصوصیت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی دوسرا آپ کا شریک و سہیم نہیں ؛ نہ ہی حضرت عمر ‘ نہ ہی علی اور نہ ہی ان دونوں کے علاوہ کوئی۔
ان میں اللہ اور اس کے رسول پر آپ سے بڑھ کر ایمان رکھنے والا اور اللہ اور اس کے رسول کا آپ سے بڑا اطاعت گزار کوئی دوسرا نہیں تھا۔اور نہ ہی شوری میں آپ سے پہلے کوئی دوسرا بولتا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف آپ کی رائے پر بہت بڑے کارناموں میں فیصلے کیا کرتے تھے۔ اور آپ ہی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں کلام شروع کیا کرتے ۔اور آپ ہی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں فتوی دیا کرتے تھے؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس فتوی کی تائید فرماتے اور اسے برقرار رکھتے تھے۔ یہ مقام و مرتبہ آپ کے علاوہ کسی دوسر ے کے حصہ میں نہیں آیا۔
جب بنو خراعہ میں سے آپ کا جاسوس حاضر خدمت ہوا‘اور یہ بتایا کہ :’’ میں اپنے پیچھے قریش کواس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی نے بہت سے قبائل اور حبشیوں اوردیگر جماعتوں کو آپ سے لڑنے کے لیے اکٹھا کیا ہے؛ وہ آپ سے لڑیں گے اور بیت اللہ اللہ تک پہنچنے سے روکیں گے۔‘‘ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا: لوگو!مجھے اس معاملہ میں بتاؤ کہ کیا کرنا چاہئے ؟کیا کافروں کے اہل و عیال پر ٹوٹ پڑیں اور ان کو تباہ کردیں ؛یا پھر ہم بیت اللہ کی طرف سفر جاری رکھیں ‘ اور جو ہماری راہ میں رکاوٹ بنیں اس سے لڑیں ۔
|