Maktaba Wahhabi

649 - 764
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اس کو مٹا ڈالا ۔ اور ان لوگوں سے اس بات پر صلح کی کہ آئندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ تین دن تک مکہ میں رہیں گے اور وہاں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ہتھیار جلبان میں ہوں گے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جلبان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیام اور وہ چیز جو اس میں ہے۔‘‘[1] صحیحین میں حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’ ہم لوگ جنگ صفین میں شریک و موجود تھے کہ سہل بن حنیف نے کھڑے ہو کر کہا :لوگو! تم اپنی رائے کا قصور سمجھو ۔ہم لوگ تو جنگ حدیبیہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے ۔اگر جنگ کی ضرورت دیکھتے تو ضرور لڑتے ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے صلح کی تھی۔ جہاں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سرور عالم سے کہا تھا: یا رسول اللہ!کیا ہم حق پر اور یہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ؟ ارشاد ہوا: ہاں ! پھرانہوں نے کہا :کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مرے ہوئے لوگ دوزخ میں نہیں ہیں ؟ ارشاد ہوا:ہاں ! تو اس کے بعد انہوں نے پھر پوچھا بتائیے :تو پھر ہم اپنے مذہب کے بارے میں ان لوگوں سے کمزوریوں کو قبول کیوں کریں اور دین میں ان سے کیوں دبیں اور قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا اور ان کا فیصلہ کرے؛ کیا ہم واپس ہو جائیں ؟ تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب!میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی رسوا و ذلیل نہیں کرے گا۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صبر نہ ہوسکا اور غصہ ہی کی حالت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اے ابوبکر!کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا :کیوں نہیں ۔ کہنے لگے :’’کیا ہمارے شہداء جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے :’’پھر ہم کس وجہ سے اپنے دین میں کمزوری قبول کریں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا اور ان کے درمیان فیصلہ کا حکم نہیں دیا؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابن خطاب! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ‘اللہ انہیں کبھی بھی ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سور فتح نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور انہی سے وہ آیات پڑھوائیں ؛ تو انہوں نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ فتح ہے آپ نے فرمایا جی ہاں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دلی طور پر خوش ہو کر لوٹ گئے۔‘‘[2]
Flag Counter